ایک تھا کوا

یہ کہانی (کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

 کالے کوّے کو بہت پیاس لگی ہے۔ اُس نے ہوا میں اُڑتے ہوئے نیچے دیکھا۔ اُسے ایک جگہبڑی سی جھیل  دکھائی دی۔ وہ جھیل میں پانی دیکھ کر زمین پر اتر آیا۔ کوے نے جھیل کے کنارے پہنچ کر ادھر اُدھر دیکھا۔ اُسے وہاں کوئی نہیں دکھائی دیا۔ کوے کو اطمینان ہو گیا کہ یہاں کوئی خطرہ نہیں ہے۔

 اُس نے اپنی چونچ سے پانی پیا۔ جھیل کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی بہت مزیدار لگا۔ کوے کی پیاس بھی بجھ گئی۔ تبھی اس کی نظر پڑی۔ وہاں ہنس کا جوڑا جھیل کے پانی پر تیر رہا ہے۔ کوے دونوں ہنسوں کو دیکھتا رہ گیا۔ کیوں بھائی، ہمیں ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ جھیل کے کنارے پہنچ کر ہنس نے پوچھا۔ کو انھیں ٹکٹکی باندھے دیکھے جا رہا ہے۔

 میں نے اتنا سفید رنگ کبھی نہیں دیکھا۔ کوے نے چونکتے ہوئے کہا۔ ”کئی چڑیوں کا رنگ سفید ہوتا ہے لیکن ایسی سفیدی نہیں ہوتی ۔“

اچھا، تم نے کس چڑیا کو سفید دیکھا ہے؟ ذرا ہمیں بھی بتاؤ ۔ ہنسنی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔

میں نے سفید کبوتر دیکھے ہیں۔ کوے نے بتایا۔

پھر ہمارا سفید رنگ دیکھ کر حیران کیوں ہو؟ ہنس نے ہنستے ہوئے کہا۔ 

کالے کوے نے تھوڑا پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ ” کیسے بتاؤں کہ تمھارا سفید رنگ چڑیوں کی سفیدی سے کیسے الگ ہے؟ وہ بھی سفید ہیں لیکن اتنے سفید نہیں۔“

کوے کے لیے سفیدی میں فرق بتانا مشکل ہورہا تھا۔

میں تمھاری مشکل آسان کر دیتی ہوں ۔ ہنسنی نے کوے کی پریشانی بھانپ لی۔ تم شاید ہمیں دودھیا سفید کہنا چاہتے ہو۔”

لیکن دودھیا سفید کسے کہتے ہیں۔ کوے نے پوچھا۔

دودھ جیسا سفید رنگ ہنس نے کوے کو بتایا۔

کوے کی سمجھ میں آیا کہ دودھ پینے کی وجہ سے ان کا رنگ اتنا سفید ہے! اسے اپنا کالا رنگ کبھی پسند نہیں آیا۔ آج ہنسوں کی سفیدی دیکھ کر اُسے اپنا کالا رنگ اور زیادہ بُرا لگنے لگا۔

کوا وہاں سے اڑتا ہوا ایک گاؤں پہنچا۔ اُس نے دیکھا ایک گائے اپنے چھوٹے سے بچھڑے کو دودھ پلا رہی ہے۔ کوا بھی پھدکتے ہوئے گائے کے پاس پہنچ گیا۔ کیوں؟ کیا بات ہے؟‘ گائے نے بچھڑے کے پاس آکر کھڑے ہوئے کوے سے پوچھا۔

 ” مجھے بھی دودھ پینا ہے! کوے نے کہا۔ یہ سنتے ہی گائے کو غصہ آ گیا۔ اُس نے ایک زور دار لات کوّے  کو ماری۔ بے چارہ کوا اچھل کر دور جا گرا۔ اُسے دودھ پینے کو نہیں ملا اور مارکھانی پڑی مفت میں ! وہ درد سے کراہتا  کائیں کائیں کرتا چلا گیا۔ لیکن کاوکوّا  اپنی دھن کا پکا نکلا۔ وہ دودھ پینے کی جگت میں گاؤں میں ہی منڈلاتا  رہا۔

 ایک دن صبح کے وقت کوے نے دیکھا کہ ایک گوالا بالٹی میں گائے کا دودھ نکال رہا ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کی بالٹی دودھ سے بھر گئی۔ پھر گوالا اپنی گائے کو چارا ڈالنے لگا۔ کوے نے اچھا موقع دیکھ کر نیچی اڑان بھری اور بالٹی پر جا بیٹھا۔ اس نے جلدی جلدی تھوڑا دودھ پیا پھر خوش ہو کر کائیں کائیں کرنے لگا۔

 یہ دیکھتے ہی گوالا دوڑا اور کوے کو بھاگنا پڑا۔ لیکن کوے کا کام بن چکا تھا۔ وہ تیزی سے اڑتے ہوئے گاؤں کے پاس ندی تک پہنچا۔ کوے نے ندی کے پانی میں اپنی شکل دیکھی تو اُسے بہت افسوس ہوا۔ اس کا رنگ پہلے کی طرح اب بھی کالا ہے۔ 

کوے نے سوچا شاید دودھ میں نہانے سے ہنس کے جوڑے کا رنگ دودھیا سفید ہوا ہو؟ یہ بات اُس کے دماغ میں بیٹھ گئی۔ اُس نے گاؤں میں گوالے کے گھر کے چکر لگانے شروع کر دیے۔ کوے کو پتا نہیں ہے کہ گوالا بھی اس کی تاک میں رہتا ہے۔ ایک دن کوے نے موقع پاتے ہی دودھ سے بھری بالٹی میں ڈبکی لگا دی۔ اُس کے بعد وہ بالٹی سے باہر نکلا۔

تراخ کی آواز کے ساتھ کوّے کے چیخنے کی کائیں کائیں دور تک سنائی دی۔ اُسے گوالے نے غلیل سے پتھر مارا تھا۔ تیز درد کی وجہ سے کوے کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ لیکن اسے خوشی ہے کہ دودھ میں نہانے کا موقع مل گیا۔ کوے کو یقین ہے کہ اس کا کالا رنگ دودھ جیسا سفید ہو گیا ہوگا۔ وہ پھر ندی کے پانی میں اپنی تصویر دیکھنے گیا۔

ارے، میرا رنگ تو ویسا ہی کالا ہے۔ کوے کے منہ سے نکلا ۔ پھر ہنسوں کی سفیدی کا راز کیا ہے؟“ اس نے سوچا۔

کوّے کو خیال آیا کہ ہنسوں کا جوڑا جھیل میں جہاں رہتا ہے اُس کے پاس میں برف سے ڈھکے پہاڑ ہیں۔ وہ برف کھانے سے سفید ہو گئے ہوں گے۔ یہ سوچتے ہی کو ا برف سے ڈھکے پہاڑوں کی طرف اڑ گیا۔ وہ دودھ جیسی سفید برف پر اتر آیا۔ یہاں بہت زیادہ ٹھنڈک ہے۔ کوا سردی سے کانپنے لگا۔ لیکن دودھ جیسی سفیدی پانے کے لیے اس نے ہمت کر کے برف میں چونچ ماری۔

 اسے لگا کہ جیسے اس کی چونچ سُن ہو گئی ہو! اپنا کالا رنگ سفید میں بدلنے کے لیے بیچارے نے ڈھیر ساری برف کھائی۔ اسے اپنے گلے اور پیٹ میں ٹھنڈک لگی اور وہ کانپنے لگا۔ کوے نے کائیں کائیں کرنے کی کوشش کی لیکن اُس کے گلے سے کھس کھس“ کی آواز نکلی !کوّے  کو سردی لگ گئی۔ وہ مشکل سے اڑتا ہوا اپنے گھونسلے تک واپس آیا ۔  کوے کی آنکھوں اور ناک سے پانی بہنے لگا۔ پھر اسے تیز بخار ہو گیا۔

کئی دنوں بعد جب کوے کی حالت سنبھلی تو اُس نے ندی کے پانی میں اپنا رنگ دیکھا۔ وہ اب بھی کالا ہے۔ کوے کو بہت افسوس ہوا۔ لیکن اسے ضد ہے کہ اپنا کالا رنگ بدل کر ہنس کی طرح سفید ہونا ہے۔ اس کی سمجھ میں آیا۔ ہنسوں کا رنگ جھیل کے پانی سے سفید ہوا ہوگا ۔ ” او ہو، اتنی سی بات میری سمجھ میں کیوں نہیں آئی ۔ کوے نے سوچا۔ میں نے بلا وجہ اتنی تکلیف اٹھائی اور مار بھی کھائی ۔

 پھر کیا تھا۔ کوا اڑتا ہوا جھیل تک پہنچ گیا۔ وہاں ہنس دکھائی نہیں دیے۔ کوّا جھیل کے ٹھنڈے پانی میں تیرنے لگا۔ وہ پانی میں ڈبکی لگا کر نہا تا جھیل کا پانی پیتا اور دن بھر تیرتارہتا۔ کافی دیر تک پانی میں رہنے کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو گئی۔ وہ سردی سےکانپنے لگا۔ پھر وہ جھیل کے کنارے دھوپ میں لیٹ گیا۔ سردی کی وجہ سے اس کی چونچ بجنے لگی تبھی دونوں ہنس بھی گھاس میں چُگتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔

ارے تمھاری حالت کیا ہورہی ہے؟ ہنس نے کوے کو کانپتے دیکھ کر پوچھا۔ کوے نے بڑی مشکل سے بتایا میں تمھاری طرح سفید ہونے کے لیے جھیل میں نہا تا اور تیر تار ہالیکن میرا رنگ کالا ہی رہا۔“ جھیل کے پانی میں رہنے کی وجہ سے ہمارا رنگ سفید نہیں ہوا ہے ۔‘ ہنس  نے ہنستے ہوئے بتایا۔ پھر تمھارے دودھ جیسے سفید رنگ کا راز کیا ہے؟ کوے نے پوچھا۔

 بھائی جیسے کوے کالے ہوتے ہیں اسی طرح ہنس دودھ جیسے سفید ۔ کسی کا رنگ بدلتا نہیں ہے ۔ یہ کہہ کر دونوں ہنس  زور سے ہنس پڑے۔ یہ سن کرکوّا رونے لگا۔ ہنسوں کو کوے کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ انھوں نے کوے سےکہا۔

 تم سفید کیوں ہونا چاہتے ہو؟ اس بار ہنسنی نے ہمدردی سے پوچھا۔ تا کہ سبھی لوگ مجھے پسند کرنے لگیں۔ کوے نے سیدھا سادا جواب دیا۔ ” پھر مجھے اپنا کالا رنگ بالکل پسند نہیں۔ 

دیکھو رنگ میں کوئی خرابی نہیں۔ تم اسے بدل نہیں سکتے ۔“ ہنس نے سمجھایا۔

 رہ گئی بات کہ سبھی  تمھیں پسند کرنے لگیں تو اپنے اندر کوئی خوبی پیدا کرو۔

“ ہنس کی بات سن کر کوے نے پوچھا۔ "کیسی خوبی؟ وہ ہنس کی بات سمجھ نہیں پایا۔ ہنس نے مثال دیتے ہوئے کہا۔

جیسے میٹھی بولی ۔”

لوگ میری آواز کا مذاق اڑاتے ہیں۔ وہ خراب آواز کو کوے کی کائیں کائیں کہتے ہیں ۔ کوے نے اپنا دکھ بتایا۔ پھر کچھ ایسا کرو کہ لوگ تمھیں پسند کرنے لگیں۔ہنس  نے کوے کو تسلی دی۔ ہر ایک میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے۔

“ یہ کہہ کرہنس  ٹہلنے لگے۔ کوے نے دیکھا کہ ہنسوں کی چال بہت خوبصورت ہے۔ اس نے آدمیوں کو بھی کہتے سنا ہے کہ ہنسنی کی چال کتنی پیاری ہوتی ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ ہنس  کی طرح چلے گا تو لوگ اس کی بھی تعریف کریں گے۔ 

اس کے بعدکوّے  نے ہنس کی چال چلنے کی مشق کی۔ وہ ہر وقت ہنسوں کے چلنے کی نقل کرنے لگا۔ جب اُسے یقین ہو گیا کہ اس کی چال بدل گئی اور خوبصورت ہو گئی ہے وہ آزمانے کے لیے گاؤں کی طرف گیا۔ گاؤں میں پنچایت ہو رہی تھی۔ کھلے میدان میں کافی لوگ جمع تھے۔ کوے نے سوچا اس سے اچھا موقع اور کیا ہوگا ؟ وہ لوگوں سے تھوڑی دوری پر زمین پر اتر آیا۔

 کوے نے ٹہلنا شروع کیا لیکن کسی نے کوے کی طرف نہیں دیکھا۔ وہ سب پنچایت میں لگے ہوئے تھے۔ ان کا دھیان اپنی طرف کھینچنے کے لیے کوے نے بہت تیز آواز میں  کائیں کائیں کی آوازیں لگانی شروع کر دیں۔ وہ لگا تار کائیں کائیں کیے جارہا تھا۔ اس کی وجہ سے لوگوں نے مڑتے ہوئے کوے کی طرف دیکھا۔ پھر کوے نے مٹک مٹک کر چلنا شروع کر دیا۔

 وہ اپنی کمر مٹکاتے ہوئے ادھر سے اُدھر گھوم رہا تھا۔کوّا، ہنس  کی طرح چلنے کی نقل کر رہا ہے۔ یہ دیکھ کر لوگوں کوہنسی  آگئی۔کوّا سمجھا کہ لوگوں کو شاید اس کے چلنے کا انداز پسند آرہا ہے اور وہ اس کی تعریف میں ہنس رہے ہیں۔ وہ بڑی ادا سے چلنے لگا۔ یہ دیکھ کر کسی نے زور سے کہا اور کوے کا دل بیٹھ گیا۔

نتیجہ: 

"کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا۔“

 تبھی سے یہ کو وؤں کی چڑھ بن گئی ہے۔

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top