ڈرامے کی اقسام

زمانہ قدیم سے ہی ڈرامے کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔
 ٹریجدی (المیہ)
 کامیڈی(طربیہ)
اس کے بعد ایسے ڈرامے جن میں الم و طرب کا امتزاج تھا اسے الم طربیہ کہا گیا۔
اس کے علاوہ ڈرامے کی اور اقسام میں میلوڈراما، سوانگ، فارس، ڈریم اور اوپیرا ہیں۔

المیہ کی تعریف

لفظ Tragedy

یونانی لفظ Tragoidia

سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی ہیں ایک ایسا سنجیدہ ڈراما جس کا انجام المیہ پر ہو۔
المیے کا آغاز چونکہ یونان سے ہوتا ہے اور مغربی ادب نے اسے عروج پہ پہنچایا۔ مغربی ادب میں ٹریجدی کی تین اقسام ہیں:یونانی المیہ، شیکسپیرین المیہ اور ہیروئک المیہ یونانی المیہ میں مذہبی روایات بنیادی عنصر کے طور پہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ ارسطو کا ماننا تھا کہ جب تک جذبات کی تطہیر نہ کی جائے وہ المیہ اعلیٰ معیار کا نہیں ہو سکتا۔ جسے کتھارسس سے تعبیر کیا گیا۔ یونانی المیہ میں بھی دکھ، درد ، تکلیف کا پاکیزہ کر کے دکھایا گیا تاکہ ناظرین کے دل کا غبار نکل سکے۔
شیکسپیرین المیہ میں کسی بھی عظیم انسان کی موت کی کہانی بیان کی جاتی ہے۔ اس کا اختتام موت پر ہونا لازم ہے۔
ہیروئک المیہ میں اس کا مرکزی کردار یعنی ہیرو بہت بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے، اس کی ہیروئن خوبصورت اور پاک باز عورت ہوتی ہے۔
ڈرامے میں المیے کی سب سے جامع تعریف ارسطو کے یہاں ملتی ہے۔
”المیہ ایک ایسے عمل کی نمائندگی ہے جو سنجیدہ، توجہ کے لائق، بذات خود مکمل اور ایک خاص حجم کا حامل ہو، اس کی زبان ہر طرح کے صنائع بدائع سے مزین ہوتی ہے۔ جو ڈرامے کے مختلف حصوں میں ان کی مناسبت سے استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی ہیئت بیانیہ نہیں بلکہ عملیہ ہوتی ہے اور یہ دردمندی اور خوف کے ذریعہ ان جذبات کی اصلاح اور مناسب تنقیہ کرتا ہے۔(28) “
آسان الفاظ میں ٹریجڈی کا پلاٹ غم سے عبارت ہوتا ہے۔ اس کے واقعات دکھ سے لبریز ہوتے ہیں۔ اس کے کردار عامیانہ نہیں ہوتے بلکہ باوقار اور اعلیٰ پائے کے ہوتے ہیں۔
ڈبلیو سیگل کے بقول:
”ٹریجڈی تخیل کی معراج ہے۔ (29)“
مختصراً المیہ ڈراما کی وہ قسم ہے جس کا اختتام درد ناک، غم انگیز ہوتا ہے۔ اس کا پلاٹ سنجیدہ ہوتا ہے۔

طربیہ کی تعریف

Comedy

یونانی زبا ن کے لفظ

Komoidia

سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں ایک ایسا مزاحیہ ڈراما جس میں کردار مشکلات کے بعد خوشی کا لطف لیں۔
المیے کے برعکس یہ ڈرامے کی ایسی صنف ہے جس کے پلاٹ میں خوشی اور مسرت کے واقعات شامل ہوں اور جس کے کرادار متوسط طبقے کی نمائندگی کرتے ہوں۔
سید بادشاہ حسین کے بقول:
” طربیہ جس کا انجام اچھا ہو۔ اور جس کا مکالمہ اور قصہ بھی ظرافت آمیز ہو۔“ (30)
مغرب میں کامیڈی کو چھ اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ رومانوی کامیڈی، کلاسیکی کامیڈی، شیکسپیرین کامیڈی، کامیڈی اور میزس یا رسٹوریشن کامیڈی، جذباتی کامیڈی، غیر جذباتی کامیڈی

ٹریجڈی کامیڈی/الم طربیہ:

ایسا ڈراما جس میں المیہ اور طربیہ کی آمیزش ہو اسے الم طربیہ ڈراما کہتے ہیں۔ اس کی وضاحت میں اسلم لکھتے ہیں:
” ان دو اقسام کے علاوہ یونانی عہد میں ڈرامے کی ایک اور شکل بھی نظر سے گزرتی ہے اس کو ساطیری ڈراما کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض ڈراما نگار موت کے المیہ انجام کے ردو بدل یا سنجیدہ ڈراموں میں طربیہ عناصر سمونے کی کوشش کرتے ہیں۔ رومن ڈراما نگاروں نے ان ہی بنیادوں پر اور تجربات بھی کیے ہیں۔ انھوں نے بہادرانہ روایات اور دیوتاؤں کی کہانیوں پر جو المیہ کے جزو تھے، طربیہ کی بنیادیں استوار کی ہیں۔ اس طرح المیہ و طربیہ کی خصوصیات کا آمیز کر کے ایک نئی قسم کی ڈرامائی صنف وجود میں آ گئی۔(31) “

فارس/سوانگ کی تعریف

انگریزی میں سوانگ کو فارس

Farce

کہا جاتا ہے۔ یہ اس نوع کا ڈراما ہے جس میں مذاق کی سطح عوامی ہوتی ہے اور بہت زیادہ مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے۔”فارس“کو مختصر مذاقیہ تمثیل بھی قرار دیا گیا۔ اس میں ڈرامے کے بنیادی عناصر یعنی پلاٹ اور کردار کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ اس کا واحد مقصد لوگوں کو سستی تفریح مہیا کرنا ہوتا ہے۔ اس بارے میں اسلم لکھتے ہیں:
”ہندوستان میں جب سنسکرت ڈرامے کو زوال آیا تو اس کی بگڑی ہوئی شکلیں عوام کی خوش طبعی کا باعث بننے لگیں۔ سوانگ اور بہروپ کا رواج ہوا۔ نقالی نے لوگوں کے پست مذاق کی تشفی کی، دربار اودھ کی رنگ رلیوں نے سوانگ بہروپ کو سنبھالا دیا۔ (32)“

میلو ڈراما کی تعریف

یہ ایسا ڈراما ہے جس میں گانوں کا بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ڈرامے میں واقعات کی کڑیوں کو ملانے کا عمل غیر فطری ہوتا ہے۔ ایک قسم کی کھینچا تانی محسوس ہوتی ہے۔
عشرت اس کو بیان کرتے ہیں:
”نیک و بد کی کشمکش کے دوران میں طوالت سے کام لیا جائے۔ مکالمے طویل ہوں۔ غیر ضروری خود کلامی ہو۔ “(33)

اوپیرا کی تعریف

بریٹینکا ڈکشنری کے مطابق:
ایک اسٹیج ڈرامہ جو مکمل طور پر موسیقی کے لیے ترتیب دیا گیا ہے، جس میں آواز اورساز ہم آہنگ ہوتے ہیں اور عام طور پر آرکیسٹرل اوورچرز اور وقفے وقفے سے ہوتے ہیں۔ کچھ اوپیرا میں موسیقی ایک ایکٹ کے دوران مسلسل جاری رہتی ہے۔
عام خیال یہی ہے کہ ایسا منظوم ڈراما جو رقص و سرود سے مزئین ہو۔ اس میں کہانی کے موضوع کے مطابق ایسی موسیقی شامل کی جاتی ہے جس کا تسلسل کہانی کے تسلسل سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد شاہد حسین کے خیالات ہیں:
”اس میں شبہ نہیں کہ اوپیرا میں رقص و سرود کے عناصر غالب ہوتے ہیں لیکن ا س کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس میں کہانی کےموضوع کے مطابق ایسی موسیقی پیش کی جاتی ہے جو مواقع کے مطابق متنوع بھی ہوتی ہے اور کسی قسم کے واقعے سے اس کا ربط و تسلسل بھی کہیں ٹوٹنے نہیں پاتا۔ (34)“

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top