کہانی

یہ کہانی  (نیبو نچوڑ)  نہم جماعت(class 9) کے نصاب میں شامل ہے ۔ 


ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی قصبے سے باہر ایک مرکزی شاہراہ پر ایک ہوٹل تھا۔ وہ ہوٹل اتنا بڑا تو نہ تھا کہ وہاں رات کے وقت بھی قیام کیا جا سکے البتہ کچھ دیر سُستانے ،کھانا کھانےاور چائے پینے کےلیے مسافروں  کے لیے ایک اچھی سہولت گاہ تھی۔  دن کےاوقات میں شاہراہ قدرے مصروف گزرگاہ کی حیثیت رکھتی تھی ۔ اس لیے مسافروں کا اس ہوٹل میں تانتابندھار ہتا تھا۔

عام بات ہے کہ ہجوم والی جگہوں پر نوسر بازوں کی بھی کمی نہیں ہوتی ہے۔ ہر نوسر باز اپنے اپنے انداز میں سادہ لوح افراد کو ٹھگنے کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتا ہے۔ اس لیے ہوٹل کے آس پاس مفت خوروں کی بھی کمی نہ تھی۔ وہ مفت خورے طرح طرح کے بہانوں سے سادہ لوح گا ہکوں سے اپنی پیٹ پوجا کر لیتے تھے۔

 ایک دن ایک مسافر اس ہوٹل میں پہنچا۔ ایک مفت خورے نے پہچان لیا کہ وہ اس علاقے میں نیا تھا۔ پہلے تو آگے بڑھ کر اس نے سامان  اُٹھوانے میں مدد کی پیش کش کی۔ انکار کے باوجود اس نے مسافر کا مختصر  سامان زبر دستی پکڑتے ہوئے کھانے کی میز تک اس کی راہنمائی کی اور ادھر اُدھر کی باتوں سے یہ معلوم کر لیا کہ وہ کہاں سےآیا تھا۔

 مسافر ہاتھ مُنھ  دھونے میں مصروف ہو گیا وہ مفت خورا کچھ دیر کےلیے دائیں بائیں ہو گیا لیکن نظریں اسی مسافر پر ہی تھیں۔ مسافر ہاتھ منھ دھونے کے بعد میز پر آیا اور بیرے کو کھانا لانے کو کہا۔ مفت خورا دور سے یہ سب  دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی کچھ دیر کے بعد بیرے نے مسافر کے آگے کھا نالا کر رکھا، مفت خورا وہاں پہنچا اور کہنے لگا: ” ارے بھئی! آپ کہاں چلے گئے تھے؟ میں تو آپ ہی کو ڈھونڈ رہا تھا ۔”

مسافر نے کہا : ” وہ کیوں؟ مجھ سے آپ کو کیا کام، میں تو آپ کو جانتا بھی نہیں ۔

مفت خورے نے ہنستے ہوئے کہا : ” بھئی! ابھی تو آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ آپ اتنا جلدی مجھے بھول گئے ۔ خیر، جہاں سے آپ آئے ہیں، وہاں میرے رشتے دار ہتے ہیں، میں نے تو صرف ان کی خیریت دریافت کرنا تھی ۔ اسی اثنا میں باتوں باتوں میں اس نے جیب سے ایک عدد نیبو نکالا اور کہا: ” یہ میں آپ کے لیے لایا ہوں ۔“

مسافر اس طرح کی زبردستی جان پہچان پر حیران ہوا اور بولا : میں آپ کے کسی رشتے دار کو نہیں جانتا ہوں اور سالن میں نیبو مجھے پسند نہیں ہے۔“

مفت خورے نے بلا جواز با تیں شروع کیں اور کہا : ” ارے! سالن کا اصل مزہ تو نیبو میں ہے۔ لاؤ آج آپ کو بھی اس ذائقے سے متعارف کرواتے ہیں۔“

مفت خورے نے جلدی سے نیبو کاٹ کر سالن میں نچوڑ دیا اور چکھنے کی غرض سے ایک لُقمہ اپنے منھ میں ڈال لیا۔ ذائقے کی تعریف کی اور مسافر سے بھی کہا کہ وہ بھی چکھ کر دیکھ لے۔ مسافر نے اپنا کھانا شروع کیا اور مفت خورے نے ذائقے کی تعریف کرتے ہوئے ایک اورلُقمہ منھ میں ڈال لیا۔

 اس کے بعد وہ کبھی رشتے داروں اور کبھی کھانے کی باتیں کرتا جارہا تھا اور مسافر کا کھانا کھاتا جارہا تھا کیوں کہ اس کا اصل مقصد تو مفت خوری ہی تھا۔ جب کھا نا ختم ہو گیا تو اس نے کہا: ” آپ میرے رشتے داروں کو نہیں جانتے تو کوئی بات نہیں، میں نے بلا وجہ آپ کا اتنا وقت ضائع کیا ۔“

مفت خور تو کھانا کھا کر اور ڈکار مار کر چلا گیا لیکن مسافر دل میں اسے لعن طعن کر رہا تھا کہ کیسا بے شرم اور بے غیرت شخص تھا کہ نیبو نچوڑنے کے

بہانے اس کا سارا کھانا ختم کر گیا۔

نتیجہ:

 مفت خوری باعث ذلت ہے۔


دوسری کہانیاں پڑھیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top