قصّہ /کہانی
ایک عورت کے دو جوان بیٹے تھے ۔ ایک تو پڑھ لکھ کر کسی دفتر میں نوکر ہو گیا اور دوسرا شہر میں راج کا کام کرنے لگا ۔ بابو تو کوٹ ، پاجامہ ، صدری اور ٹوپی پہنتا اور راج گیری کرنے والا نہ بندکُرتہ ، صدری اور پگڑی ۔
ایک دفعہ جاڑے کا موسم آیا اور بابو کے لیے ماں نے کشمیرے یا پٹو کا کوٹ بنوایا تو راج نے کہا ۔ اماں جان ! مجھے بھی ایسا ہی کوٹ بنوا دو۔
ماں نے کہا ۔ بیٹا ! ایسے کپڑے تمھارے پہننے کے نہیں ۔ یہ تو منشی بابوؤں ہی کو سجتے ہیں۔ سردی کا خیال ہے تو مرزئی بنوا ؤں ۔ تم اینٹ گارے کا کام کرنے والے ہو کوٹ اور پاجامہ بھلا وہاں کیا کام دے گا؟ ماں کی یہ بات سُن کر غیرت والے بیٹے نے دل میں کہا ۔ افسوس میں نے کیوں نہ پڑھ لیا کہ اب بھلے مانسوں کے سے کپڑے بھی نہیں پہن سکتا:
یہ سوچ کر اُس نے پہلے تو رات کے وقت کسی سے پڑھنا شروع کیا ۔ جب اچھی طرح حرف پہچاننے لگا تو راج گیری چھوڑ مدرسے میں داخل ہوا اور بارہ برس میں ایم ۔ اے پاس کر کے کسی اچھے عہدے پر نوکر ہو گیا۔
اخلاقی سبق:
کوئی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا لیکن علم والے کی ہمیشہ قدر ہوتی ہے۔
مآخذ: اخلاقی کہانیاں ، بچوں کے لیے، فیروز سنز ، لاہور
دوسری کہانیاں پڑھیں!
-
8. اپنا الو سیدھا کرنا
-
سرخاب کے پر
-
6. شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانا
-
5۔ ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے
-
4۔ ہوشیار بگلا
-
3۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا
-
2۔ توتا چشمی | طوطا چشمی
-
1۔ کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی چال بھول گیا
-
5۔ عِلم کی اہمیت
-
4۔ میں جھوٹ نہ بولوں گا
-
3۔ میں کیوں نہیں پڑھ سکتا؟
-
2۔ کام کرنے کی برکت
-
1۔ چار سال کا بوڑھا
-
21۔ کوے کا انتقام
-
20۔ نیبو نچوڑ
-
19۔ نادان کی دوستی
-
18۔ ایسے کو تیسا
-
17۔ عادت کی خرابی
-
16۔ انگور کھٹے ہیں
-
15۔ انصاف