یہ کہانی (سرخاب کے پر) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

"اتوار کو ہم لوگ سیمرئی  تال دیکھنے چلتے ہیں ،” عامر نے اپنے دوستوں ،دستگیر، سعید اور اسرار سے کہا۔

 وہاں کیا دیکھیں گے ؟ اگر مچھلیوں کا شکار کرنا ہو تو بات الگ ہے، سعید نے پروگرام کے بارے میں پوچھا۔

 "سیمر ئی تال پر آج کل ہزاروں چڑیاں آتی ہیں۔ بہت خوبصورت نظارہ ہوتا ہے ۔‘سعید نے بتایا۔ واقعی میں چڑیوں کا میلہ لگتا ہے۔ دیکھنا بہت مزہ آئے گا۔ عامر نے بھی دوستوں کو چلنے کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی ۔ وہ غلط نہیں کہہ رہا کیونکہ ہزاروں چڑیوں کو دیکھنے کے لیے کافی لوگ آتے ہیں۔

 کیا وہاں مرغابیوں کا شکار کر سکتے ہیں؟“ اسرار کے پاس چھرّے والی بندوق ہے۔ تبھی وہ شکار کرنے کی تاک میں رہتا ہے۔

خبردار بندوق ساتھ لے کر نہیں چلنا۔  سعید نے اپنے دوست سے کہا۔ ورنہ صحیح سلامت واپس نہیں آؤ گے۔

“ گاؤں کے لوگ شکاریوں کی وہ مرمت کرتے ہیں کہ زندگی بھر یا رہتا ہے۔ عامر نے بتایا۔ چڑیا تودور اگر مچھلی بھی شکار کرنے کی کوشش کی۔

 سبھی دوست اتوار کی صبح اپنی اپنی سائیکلوں سے سیمرئی گاؤں کی طرف چل دیے۔ یہ گولا قصبہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔ وہاں گاؤں کے قریب ہی بڑی سی جھیل ہے۔ دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔ لیکن گاؤں والے اُسے تال کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ آنے والوں پر نظر بھی رکھتے ہیں تا کہ کوئی شکار کرنے کی کوشش نہ کرے۔ وہ لوگ مانتے ہیں کہ چڑیوں کو مارنا گناہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ چڑیاں بہت دُور سے آتی ہیں۔ کچھ کرین تو سائبیریا کی طرف سے ہزاروں میل کی دوری سے سیمر ئی تال پر پہنچتی ہیں سردیاں گزارنے کے لیے۔

ارے یہ تو بہت بڑا تال ہے۔ دستگیر نے دیکھتے ہی کہا۔ وہ پہلی بار آیا ہے۔ ہاں یہ ایک قدرتی جھیل ہے۔ عامر نے بتایا۔ جہاں تک دیکھو پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے۔“

 اکتوبر کے مہینا میں موسم بہت ٹھنڈا نہیں۔ یہ گلابی جاڑوں کے دن ہیں ۔ دھوپ بھی کِھلی ہوئی ہے۔ تال کے پانی پر ہزاروں چڑیاں ہیں۔ وہ اپنی چونچ پانی میں مارتی ہوئی مچھلیوں سے لے کر کیڑے مکوڑے تک کھا رہی ہیں۔ شاید جن چڑیوں کا پیٹ بھر چکا وہ مزے سے پانی پر تیر رہی ہیں۔

یار، یہاں تو اتنی چڑیاں ہیں کہ گنتی بھی نہیں کر سکتے؟ دستگیر نے  چڑیاں کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ تال سے تھوڑی دورپر مٹی کا ٹیلہ ہے وہاں بھی بہت ساری چڑیاں دکھائی دے رہی ہیں۔

 تم اگر گنتی بتادو تو تمھیں انعام دیں گے ۔ سعید نے مذاق کیا۔

خاص بات یہ ہے کہ یہاں چڑیاں بھی بہت طرح کی ہیں۔ ان میں کئی ایسی قسمیں ہیں جو کہانیوں میں ہی پڑھی ہیں کبھی دیکھی نہیں ۔ عامر نے چڑیوں کی قسموں پر دھیان دلاتے ہوئے کہا۔

یہ بھلا کہاں کہاں سے آئی ہوں گی ۔ دستگیر نے حیرت سے پو چھا۔ چونکہ عام کو چڑیوں کا بہت شوق ہے اس لیے وہ اُن کے بارے میں پڑھتا رہتا ہے۔ اُسے معلوم ہے کہ یہ چڑیاں کہاں کہاں سے آتی ہیں۔ 

ان میں سے زیادہ تر چڑیاں نیپال، تبت اور لدّاخ کے ٹھنڈے علاقوں سے آئی ہیں۔ عامر بتانے لگا تبھی دستگیر نے تعجب سے کہا۔ اتنی دُور سے۔“ 

تمھیں اس سے زیادہ تعجب ہوگا کہ بہت ساری چڑیاں سینٹرل ایشیا اور یوروپ کے دکھنی علاقوں سے بھی آتی ہیں۔

انھیں اتنی دور آنے کی کیا ضرورت ہوتی ہے۔ دستگیر نے دوسرا سوال کیا۔ اس بار سعید نے جواب دیا ۔ وہاں سردی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ برف گرنے کی وجہ سے چڑیوں کو کھانے پینے کے علاوہ رہنے میں بھی پریشانی ہونے لگتی ہے۔

” کیا یہ صرف سیمرئی ہی سے آتی ہیں۔“ اس نے پوچھا۔

نہیں یہ پنجاب، ہریانہ اور اتر پردیش کے کئی میدانی علاقوں سے آتی ہیں ۔ تبھی اسرار نے ٹوک دیا۔

کمال ہے تم لوگ چڑیوں پر دھیان نہیں دے رہے ! دیکھو تو کتنی طرح کی اور خوبصورت ہیں ۔“ کچھ تو پہچانتا ہوں۔ سعید نے بتاتے ہوئے دکھایا۔ وہ مرغابیاں ہیں ۔ سیخ پر ہے.

 تبھی عامر نے پوچھا وہاں رنگ برنگی اور خوبصورت پروں والی چڑیا ہیں کیا انھیں پہچانتے ہو۔“

 نہیں ۔ سعید نے دیکھتے ہوئے کہا۔ ” میں اس چڑیا کونہیں پہچانتا ہوں۔“

کمال ہے اتنی مشہور چڑیا نہیں پہچانتے ہو۔“ اسرار نے سعید کا مذاق اُڑایا۔

 بھائی تم چڑی مار ہو اس لیے بھی چڑیا پہچانتے ہو۔ سعید نے بھی اچھا جواب دیا۔

وہ سُرخاب ہے! عامر نے دونوں کا جھگڑا بڑھتے دیکھ کر جلدی سے چڑیا کا نام بتادیا۔ وہاں کئی سُرخاب دکھائی دے رہے تھے۔ سُر خاب کی چونچ بطخ جیسی کالی آنکھوں کے پاس سفید رنگ، گلے میں کالر بھی ہے۔

 یہ نیپال ، تبت اور لداخ سے جوڑوں کی شکل میں آتے ہیں۔ عامر نے جانکاری دی۔

اس کے پروں کے رنگ بہت خوبصورت ہیں۔ کسی نے کہا۔ کبھی دوست سر خاب کو نہا ر ر ہے ہیں۔

 ہاں سفید پروں کے علاوہ پنکھ کے کنارے ہرے رنگ کے پروں میں ہیں۔ لیکن پو نچھ کالی ہوتی ہے۔ پھر عامر نے ایک انوکھا سوال کیا ” کیا تمھیں معلوم ہے کہ سُر خاب کے پنکھوں میں کنارے پر کالے پروں کا کیا کام ہوتا ہے؟“

ارے یار، پروں کا کیا کام ہو سکتا ہے؟ دستگیر نے حیرانی سے کہا۔

سُرخاب اپنے کالے پروں سے ہی اُڑتا ہے ! چڑیا کی یہ خصوصیت اگر عامر نہ بتا تا تو کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتی۔

 وہ دیکھو اُڑتا ہواسُرخاب ! دستگیر نے اشارہ کیا یہ جب اپنے پنکھ پھیلاتا ہے تو رنگوں کی بہار دکھائی دیتی ہے۔

سبھی سُرخاب کی خوبصورتی میں کھو گئے۔

 اچھا، یہ چڑیا  رات میں کہاں بسیرا کرتی ہے؟ دستگیر نے سعید سے پوچھا تو وہ کہنے لگا ”بھیا یہ سوال عامر سے ہی پوچھو۔ 

سُرخاب اپنا ٹھکانا پیڑوں کے کھلے تنوں ، پتھروں کی گہری دراڑوں اور کھڑی چٹانوں میں بناتے ہیں۔“ اس کے بعد عامر نے تھوڑا مسکراتے ہوئے کہا ” کبھی کبھی یہ خرگوش کے بنائے ہوئے وہ بھی زمین کے اندر ، گھروندوں میں رہنے لگتے ہیں۔“

ہاں ، ایک بات اور اس بار اسرار نے کہا یہ اپنے گھونسلے میں بہت نرم پروں کی موٹی سی تہہ بچھاتے ہیں وہیں انڈے بھی دیتے ہیں۔“

 ” کہتے ہیں کہ کشمیر میں ننھےمُنّے  سرخاب کافی تعداد میں دیکھے جاسکتے ہیں۔“ عامر نے سُرخاب کے بچوں کےبارے میں جب یہ بتایا تو کبھی حیران رہ گئے۔

ننھےسر خاب شکاری پرندوں سے بچنے کے لیے جھیل کے پانی میں غوطہ لگاتے ہیں۔ ان کے چھپ جانے کے بعد بچوں کے ماں باپ پانی پر سے اُڑتے ہوئے چلے جاتے ہیں تا کہ شکاری پرندوں کو دھوکا ہو کہ ان کے بچے یہاں پانی میں نہیں ہیں۔ مجھے یہ بات میرے کشمیری دوست غلام رسول زرگر نے اس وقت بتائی تھی جب میں اس کے ساتھ ناگن جھیل دیکھنے گیا تھا۔ اتفاق سے وہ بھی اکتوبر کا مہینا تھا۔“

  شام ڈھلنے لگی۔ انھوں نے اپنی اپنی سائیکلیں سنبھالیں تبھی اسرار نے کہا۔ یار دستگیر، میں بہت تھک گیا ہوں۔  کیا میں تمھاری سائیکل پکڑ کر چلوں تا کہ مجھے پیڈل چلانے کی محنت نہ کرنی پڑے !

یہ سنتے ہی دستگیر کے جواب سے سبھی قہقہہ مارتے ہوئے ہنسنےلگے۔ وہ بولا ۔ ” کیا تم میں سُر خاب کے پر لگے ہیں!”

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top