کہانی

یہ کہانی  (جھوٹ کی سزا)  نویں جماعت کے نصاب میں شامل ہے ۔ 

ایک نو جوان گڈریا جو دریا کے کنارے اپنی بھیڑیں چرایا کرتا تھا۔ اسے عادت تھی کہ کبھی کبھی مستی میں آکر چلاتا!” شیر آیا شیر آیا۔ دوڑو !” ارد گرد کے کھیتوں میں کام کرنے والے سنتے تو لاٹھیاں، کلہاڑیاں لے کر دوڑ پڑتے مگر جب گڈریے کے پاس پہنچتے تو وہاں کوئی شیر، بھیٹر یا نہ پا کر گڈریے سے پوچھتے!  میاں ! کہاں ہے شیر؟”

گڈریا ہنس دیتا اور کہتا ، میں نے تو صرف دل لگی کی تھی ، شیر کے لیے تو میں خود ہی کافی ہوں ۔ شیر آئے گا تو جان سلامت نہ لے جائے گا۔ چند بار تو لوگ گڈریے کی پکار سن کر پہنچتے رہے مگر گڈریے کی روز کی پکار سے تنگ آگئے۔ اب اس کی پکار کو سب جھوٹ سمجھتے اور کوئی ادھر توجہ نہ دیتا۔

 خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ایک دن سچ مچ  کہیں سے شیر آ گیا۔ بھیڑوں کا گلہ دیکھا تو خوش ہو گیا۔ بڑھ کر ایک بھیڑ کے پنجہ مارا۔ بھیڑ کی گردن ٹوٹ گئی اور مرکر ڈھیر ہوگئی ۔ گڈریے نے شور مچایا، مگر کوئی اس کی مدد کو نہ آیا۔

گڈریا لاٹھی لہراتا ہوا آگے بڑھا تو شیر نے ایک ہی جست میں اس کی گردن بھی مروڑ دی۔بھیڑیں  بھاگ رہی تھیں اور شیران کا شکار کر رہا تھا آخر سارے کا ساراگلّہ ہ شیر کا شکار بن گیا۔

سورج غروب ہو گیا۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ نہ گڈریا آیا نہ بھیڑوں کا گلّہ ۔ گڈریے کے رشتہ داروں نے رات بہت بے چینی سے گزاری۔ صبح ہوتے ہی ڈھونڈنے کو نکل کھڑے ہوئے۔ چرا گاہ پہنچے تو مردہ بھیڑوں اور مرے ہوئے گڈریے کے سوا وہاں کچھ نہ تھا۔ گڈریے کو جھوٹ کی سزامل چکی تھی اور  بھیڑیں مفت میں جان گنوا چکی تھیں ۔

نتیجہ/اخلاقی سبق:

  1.  جھوٹ کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے۔
  2. جھوٹ بری عادت ہے
  3. جھوٹ بری بلا ہے

دوسری کہانیاں پڑھیں! 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top