یہ کہانی (جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

 بہت دنوں پہلے کی بات ہے۔ دھرتی پر انسان، جانور اور پرندے کبھی ساتھ رہتے تھے ۔ اس وقت گاؤں ،قصبہ اور شہر نہیں تھے ۔ ہر طرف جنگل پھیلے ہوئے تھے۔ لوگ جنگلوں سے پھل ، شہد اور جڑی بوٹیاں لیتے ۔ وہ کھانے کے لیے شکار کرتے تھے۔ اس طرح لوگوں کا گزارہ جنگلوں اور جانوروں پر ہوتا۔ جانور اور پرندے بھی جنگلوں میں زندگی بسر کرتے۔

انھیں بھی کھانے پینے اور زندہ رہنے کا سامان جنگلوں سے ہی ملتا رہتا۔ اُس کے بعد جانوروں اور پرندوں کا انسانوں سے جھگڑا ہو گیا۔ انھیں شکایت ہوگئی کہ انسانوں نے جانوروں کا شکار کرتے ہوئے ان کے کھانے میں کمی پیدا کر دی ہے۔ پرندوں کو بھی انسانوں سے شکایت ہوئی کہ انھیں مار کر کھا جاتے ہیں۔ چڑیوں کو پالنے کے لیے قید کر لیتے ہیں۔ دھیرے دھیرے انسانوں اور جانوروں کے بیچ جھگڑے بڑھنے لگے۔ اسی غصہ میں اکثر کئی جانوروں، خاص طور پر شیر، بھالو اور بھیڑیوں نے انسانوں پر حملے کیے ۔کبھی کبھی بدمعاش لکڑبگھؔے ، لوگوں کے بچے اٹھا لائے اور انھیں کھا گئے۔

"تم لوگ اگر جانوروں کو مارو گے تو ہم کیا کھا ئیں گے؟”  شیروں نےغصّہ سے دہاڑتے ہوئے کہا۔ ادھر جنگل میں انسانوں نے کافی ہرن ، سانبھر اور چیتل مارے تھے۔ شیروں نے بھوکے ہونے پر کئی لوگوں پر حملہ کر دیا۔

روزانہ بڑھتے ہوئے جھگڑوں کو نپٹانے کے لیے جنگل میں ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں سبھی لوگ، جانور اور پرندے شامل ہوئے۔

آج جھگڑوں کو نپٹانے کا فیصلہ ہونا ہے۔ ایک طرف درندے جیسے شیر ، بھیڑئے لکڑ بگھّے  اور جنگلی کُتّے بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سے تھوڑی دور پر ہرن، چیل، سانبھر اور ار نے بھینسے چوکنے کھڑے ہیں۔ کہیں کہیں گھاس میں خرگوش، گلہری اور دوسرے چھوٹے جانور د بکے ہوئے ہیں۔پیڑوں  پر بہت کم پرندے بیٹھے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر نہیں آئے کیونکہ ہوا میں اُڑنے کی وجہ سے وہ انسانوں اور جانوروں کے ہاتھ کم ہی لگتے ہیں اس لیے پرندے اس جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتے تھے۔

” تم لوگ ہمارا شکار کرتے رہتے ہو جبکہ ہم تمھا راشکار نہیں کرتے ہیں ۔” جانوروں نے انسانوں سے شکایت کی۔ یہ

بات صحیح بھی ہے کیونکہ جانور شاید ہی کبھی انسانوں کا شکار کرتے ہیں۔

 ” لیکن ابھی لکڑ بگھّے  اور بھیڑیے کئی بچوں کو اٹھا کر لے گئے ہیں۔ لوگوں نے شکایت کی۔ شیر نے کھڑے ہو کر کہا۔

"پھر فیصلہ کر لو کہ انسان اور جانور الگ الگ رہیں گے تا کہ کوئی جھگڑا ہی نہ ہو۔“

 یہ بات سنتے ہی تمام بھیڑیوں نے ہاؤں ہاؤں کرتے ہوئے شیر کا ساتھ دیا۔ اُدھر چینل اور ہرن وغیرہ نے انسانوں کو جنگل سے چلے جانے کے لیے کہا۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کم سے کم انسانوں کے شکار ہونے سے بچیں گے۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد انسانوں نے جنگل چھوڑ دیے۔ وہ کچھ جگہوں پر پیڑوں  اور زمین کو صاف کرنے کے بعد کھیتی باڑی کرنے لگے۔ لیکن یہ بات بھی طے ہوئی کہ انسان جنگلوں سے شہد اور جڑی بوٹیاں لینے آتے رہیں گے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم لوگ جانوروں کا شکار نہیں کرو گے۔“ شیر نے راجا ہونے کا فرض نبھایا۔

جانور بھی ہماری بستی میں نہیں آئیں گے۔ وہ ہمارے کھیتوں میں چرنے کے لیے ہرگز نہ آئیں ۔ آدمیوں نے کہا۔ وہاں موجود پرندوں نے دیکھا کہ ان کی کوئی بات نہیں ہو رہی ہے۔ چڑیوں کوکوئی فکر بھی نہیں کہ وہ ہوا میں اڑتی اور

پیڑوں پر گھونسلہ بنا کر رہتی ہیں۔ انھیں کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ جنگل کے پپیڑوں  پر رہیں یا بستی میں پیڑوں  پر بسیرا کریں۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ انسانوں اور جانوروں میں کیا سمجھوتہ ہوتا ہے۔درخت پر بیٹھے تو تے نے کہا۔

” اور کیا ؟ ہمیں تو انسان اور جانور دونوں سے خطرہ رہتا ہے۔”  کبوتر نے تو تے کی ہاں میں ہاں ملائی۔

” لیکن ہم کہاں جائیں؟” ایک مور نے اداس ہو کر کہا۔ ہم تو چھوٹی چڑیوں کی طرح اڑتے نہیں ۔ مور کی بات صحیح ہے کیونکہ وہ بھاری بھر کم پرندہ ہے جو بہت کم اور بس تھوڑا اڑتا ہے۔

آدمیوں نے مور کی بات سنی تو کہنے لگے۔ ہمارے لیے پرندے بھی جانور ہیں۔ وہ بھی جنگلوں میں رہیں۔ ہماری

بستیوں میں صرف انسان رہیں گے۔“

جانوروں کی طرف سے ہاتھی نے کہا ” ہمیں پرندوں کے جنگل میں رہنے پر کوئی اعتراض نہیں ۔ ہاتھی کی بات سن کر سبھی جانوروں نے رضا مندی دی۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے یہ طے ہو گیا کہ سبھی  پرندے بھی جنگلوں میں ہی رہیں گے۔

مور نے اپنی بات دوہرائی ہمیں تو کھیتوں کھلیانوں اور باغوں میں رہنے میں زیادہ مزا آئے گا۔“ یہاں لڑائی بند کرنے کے لیے فیصلہ ہورہا ہے۔ اس میں تمھاری پسند اور ناپسند کا کوئی سوال نہیں ۔” جنگلی کتے نے رال ٹپکاتے ہوئے کہا۔

ہاں تم کیوں چاہو گے کہ ہم بستیوں میں رہیں۔ مور نے پلٹ کر جواب دیا۔ وہ جانتا ہے کہ کتے ، بھیڑیے اور شیر

بھی موروں کا اکثر شکار کر لیتے ہیں ۔

کئی چڑیوں کو بہت افسوس ہوا کہ انسان انھیں اپنی زندگی سے نکال رہے ہیں۔ بستی بن جانے کے بعد کئی چڑیاں گھریلو کہلائی جانے لگیں۔گوریّا  تو لوگوں کے آنگن میں دیکھی جاتی۔ اُسے جنگل سے زیادہ بستی میں رہنا راس آرہا ہے۔ اسی طرح کبوتر اور فاختہ بھی گھروں کی منڈیروں پر بیٹھے رہتے۔ انھیں بھی جنگل میں رہنے میں اتنا مزا نہیں آتا جتنا کہ انسانوں کے ساتھ آنے لگا۔

ہم تمھاری منڈیروں پر بیٹھ کر کائیں کائیں نہیں کریں گے تو تمھیں مہمانوں کے آنے کی خبر کیسے ہوگی ؟ کوے نے انسانوں سے کہا۔

پھر ہماری چہچہاہٹ کیسے سنو گے؟ بلبل نے اُداسی سے کہا جو ہمیشہ چہکتی دیکھی گئی۔ اُسے بھی بستیوں کو چھوڑ کر جنگلوں میں رہنا پڑے گا۔ ہم تو تمھارے کام آتے ہیں ۔ مور نے آدمیوں سے کہا "ہم سانپوں کو مار ڈالتے ہیں جن سے تمھیں ڈر لگتا ہے ۔“

لوگوں کو یہ بات پتا ہے کہ مور سانپوں کے دشمن ہوتے ہیں۔ پھر بھی کہنے لگے۔

تم ہمارے کھیتوں سے اناج بھی کھاتے ہو۔ یہ سنتے ہی مور چُپ ہو گئے۔ تو پھر فیصلہ ہو گیا ! انسانوں نے بیٹھک سے جاتے ہوئے کہا۔ ” چڑیوں کے بارے میں بعد میں دیکھیں گے۔

ابھی تو انھیں جنگل میں ہی رہنا ہوگا۔“

جانوروں نے بھی چڑیوں سے کہا تم لوگوں کو کیا پریشانی ہے؟ آسمانوں میں اڑ واور پیڑوں پرگھونسلوں میں رہو۔“ یہ سن کر ایک چڑیا نے چِڑھتے ہوئے کہا ” اور ہوا کھاؤ!”

مجبوری میں سبھی  پرندے جنگلوں میں واپس چلے آئے۔ ان میں زیادہ تر جنگی پھلوں پر گزارہ کرنے لگے۔ اس کے علاوہ زمین میں کیڑے مکوڑے کھاتے ۔ یہی موروں کے ساتھ ہوا۔ انھیں بھی دانےدُنکے  کی جنگلوں میں کوئی کمی نہیں۔ لیکن درندوں کے شکار ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ یہی بات موروں نے جنگل کی بیٹھک میں رکھی۔

"تمھیں یہ خطرہ تو انسانوں سے بھی ہوتا ہے۔ وہ بھی شکار کرتے اور چڑیوں کو کھاتے ہیں۔“

شیر را جانے سمجھایا۔ حالانکہ اس کی نیت میں کھوٹ ہے۔ وہ بھی بھو کے ہونے پر شتر مرغ اور مور جیسے بھاری پرندوں کو کھا جاتا ہے۔ لیکن چھوٹی چڑیوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی بلکہ وہ اپنے دکھ درد بتانے لگیں۔ ایک کبوتر نے کہا۔ عجیب بات ہے کہ کسی انسان پر فالج گر جائے تو وہ ہمارا خون مالش کے لیے استعمال کرتا ہے۔ فاختہ بی نے بھی اسی طرح کی بات کی ۔ کبوتر اور فاختہ کا گوشت گرمی پیدا کرنے والا مانتے ہیں۔ اس لیے ہمارا شکار کرنے لگے ہیں۔

” تو پھر خوش رہو جنگل میں ۔ بھیڑیے نے غراتے ہوئے کہا۔ یہاں تمھارا شکار نہیں ہوتا ۔

” ہاں ۔ اگر کبھی لومڑی دبے پاؤں آتی ہے تو ہم پھر سے اڑ جاتے ہیں ۔ چڑیوں نے جنگل میں رہنے میں ہی اپنی

بھلائی مان لی۔

 اب بھلا مور کیا کہتے ؟ وہ بے چارے اُداس ہو کر بیٹھک سے چلے گئے ۔ پھر برسات کی پھوار یں  آئیں جنگل کے پیڑ پودوں اور گھاس میں جیسے نئی زندگی آگئی۔ پانی برسنے سے پھول، پتیوں میں بھی جان پڑ گئی۔ اس وقت ہلکی رم جھم ہورہی ہے ۔ ٹھنڈی ٹھنڈی مست ہوا چلنے لگی ۔ ایسے سہانے موسم میں بھلا مور خود پر قابو کیسے رکھ پاتے ؟ وہ مستی میں ناچنے لگے اپنے خوبصورت پنکھ پھیلائے ۔ لیکن انھیں افسوس بھی ہے کہ جنگل میں ان کا ناچ دیکھنے اور خوش ہونے والا کوئی نہیں ۔

جانوروں نے کیا دوسری چڑیوں نے بھی کوئی دھیان نہیں دیا۔

تبھی تو کہتے ہیں کہ :

جنگل میں مور  ناچا کس نے دیکھا ؟

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top