کہانی
یہ کہانی ( جس کا کام اُسی کو ساجھے) نہم جماعت(class 9) کے نصاب میں شامل ہے ۔
( راولپنڈی بورڈ 2013، سرگودھا 2013، ساہیوال، ملتان، 2014، )
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ گرمی کا موسم تھا، دھوپ شدت کی تھی۔ ہر طرف آسمان سے آگ برس رہی تھی۔ ایک بڑے جنگل کے کنارے ایک برگد کا درخت شاخوں کی چھتری تانے کھڑا تھا۔ اس کی گھنی چھاؤں میں ایک بڑھئی لکڑی کے بڑے بڑےلٹھ چیرنے میں مصروف تھا۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مشغول تھا کہ اس نے کبھی برگد کی چھاؤں کے سوا کسی طرف خیال نہیں کیا تھا۔ برگد کے اوپر ایک بندر بھی رہا کرتا تھا اور بڑی توجہ سے بڑھئی کو لکڑی چیرتے دیکھا کرتا تھا۔ اسے بڑھئی کا کام اتنا پسند آیا کہ وہ چاہتا تھا کہ بڑھئی چلا جائے اور وہ لکڑی چیرنے کے لیے لٹھ پر بیٹھ جائے اور بڑھئی بن کر لکڑی چیرے۔ بڑھئی اکثر لکڑیچیرتے وقت درز میں ایک پچر ٹھونک لیا کرتا تھا۔ تاکہ لکڑی چیرنے کے عمل میں آسانی ہو۔
بندر نے یہ سارا کھیل دیکھا اور موقع کی تلاش میں رہنے لگا۔ ایک دن کا ذکر ہے کہ بڑھئی کسی حاجت کے لیے لٹھ سے اٹھا آری اور پچر دونوں اپنی اپنی جگہ چھوڑے اور خود چلاگیا۔ بندر نے دیکھا، موقع پایا، درخت سے اترا لٹھ پر آ بیٹھا اور ادھر ادھر دیکھ جھانکا اور پچر کے ساتھ زور آزمائی کرنے لگا۔
ہلتے ہلتے آخر پچر درز سے نکل آئی اور درزیں بند ہوگئیں ۔ اس کے ساتھ ہی بندر کا ہاتھ درز میں آکر پھنس گیا۔ بندر درد کی شدت سے چیخنے لگا۔ ہاتھ نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن بے سود۔۔۔
آخر کار بےہوش ہو کر گر پڑا۔ بڑھئی نے بندر کی چھینیں سنیں تو بھاگا ہوا آیا۔ بندر کو بے حس و حرکت پڑے پایا۔ جلدی سے پچراٹھائی اور لکڑی کی درز میں ٹھونک دی۔ درز کھلی تو بندر پھر بھی نہ ہلا۔ بڑھئینے دیکھا تو وہ مر چکا تھا۔ اسے درز کی قید سے نکال کر الگ پھینکا اور غصے سے کہنے لگا: ” جس کا کام اسی کو ساجھے "
بے وقوف تو بند ر تھا۔ بڑھئی بننے کی آرزو میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
نتیجہ/اخلاقی سبق:
جس کا کام اسی کو ساجھے
دوسری کہانیاں پڑھیں! شکریہ(یہاں کلک کریں)