توتے کی بے مروتی

یہ کہانی (توتا چشمی) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

گولا گنج کے ایک ہی مکان میں باغ ہے۔ اسے امین باغ کہتے ہیں۔ اس میں کئی طرح کے آموں کے پیٹر ہیں۔ لیکن دسہری، سفیدہ اور لنگڑا کے پیڑ زیادہ ہیں۔ آم کے موسم میں یہاں بھینی بھینی خوشبو آتی ہے۔ پھر جیسے ہی آموں کےپیڑوں  پر بور آتا ہے تو پیٹر بور سے لد جاتے ہیں۔

اس باغ کے مالک امین صاحب کہلاتے ہیں۔ انھیں آم کی قلمیں بنانے کا شوق ہے۔ ان کی امینی دسہری کے آم بہت اچھے ہوتے ہیں۔ اسی لیے وہ امینی دسہری کےپیڑ کی کافی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب بور سے چھوٹی چھوٹی امیاں بنتی ہیں تبھی سے امین صاحب اس پیڑ کے آموں پر نظر رکھنے لگتے ہیں۔ آندھی چلنے کے بعد وہ اس پیٹر کی فصل کی گنتی ضرور کرتے ہیں۔

 موسم آتے ہی امین باغ میں خوب چہل پہل ہونے لگتی ہے۔ بہت سارے تو تے بھی باغ کے چکر لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر تو توں کو اڑاتے رہنے کا انتظام نہ کیا جائے تو شاید باغ میں آدھے آم بھی نہ رہ جائیں۔ تو توں کو آم کھانا بہت پسند ہوتا ہے۔ اسی لیے امین صاحب نے باغ کی رکھوالی کرنے والے دانش علی سے کہہ رکھا ہے۔ تمھیں تو توں سے آموں کو بچانا ہے ورنہ بہت نقصان ہو گا ۔“

آپ فکر نہ کریں ۔ دانش علی نے اطمینان دلاتے ہوئے کہا ” میں تو توں پر نظر رکھتا ہوں اور انھیں باغ میں ٹکنے نہیں دیتا۔“

  "تمھیں امینی دسہری کےپیڑ پر دھیان دینا ہے۔ خبردار! تو تے ایک آم بھی خراب نہ کرنے پائیں "۔ امین صاحب کو اپنے من پسند آموں کے پیڑ کی بہت فکر رہتی ہے۔ دانش علی کو جسے ہی تو توں کا غول باغ کی طرف آتا دکھائی دیتا ہے وہ زور زور سے پٹاخوں کے دھما کے کرنے لگتا ہے تاکہ تو تے ڈر کر بھاگ جائیں۔

"صرف پٹاخوں سے کام نہیں چلتا ۔” امین صاحب نے دانش علی کو غلیل تھماتے ہوئے کہا کوئی تو تا اس پیڑ پر دکھائی دے تو فورا غلیل سے پتھر مارو۔“

پھر امین صاحب نے دانش سے پوچھا۔ "تمھارا غلیل کا نشانہ کیسا ہے؟“

میں نے بچپن میں غلیل  چلائی ہے اس لیے میرانشانہ بھی کچھ بُرا نہیں ۔  دانش علی نے غلیل سنبھالتے ہوئے  بھروسا دلایا۔

لیکن دانش علی اتنے غور سے نہیں دیکھتا ہے جتنا کہ امین صاحب ! انھوں نے دیکھا کہ ایک تو تا کافی الگ دکھائی دیتا ہے دوسرے تو توں سے۔ اس کے گلے میں لال رنگ کنٹھی  بنی ہوئی ہے۔ وہ تو تا بھی صرف امینی دسہری کےپیڑ  پر آنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ امین صاحب کو اپنے اس پیٹر کی طرح یہ توتا بھی بہت خاص لگتا ہے ۔ ” دانش، اس پیڑ پر ایک کنٹھی دار تو تا اکثر آتا ہے۔ میں اسے پکڑ کر پالنا چاہتا ہوں۔“

” یہ کون سی بڑی بات ہے۔ ” کسی تجربہ کار چڑی  مار کی طرح دانش علی نے کہا۔ ” میں جال میں پھنسانے کی کوشش کروں گا۔“

دانش علی نے کئی بار جال بچھایا لیکن تو تا بھی ہوشیار نکلا۔ وہ اسے پکڑ نہیں سکا۔ تب امین صاحب نے کہا:” تم پیٹر کی شاخوں پر لہسہ لگاؤ تبھی اسے پکڑ پاؤ گے۔“ 

اگلے دن دانش نے لگ بھگ ان سبھی شاخوں پر لہسہ لگا دیا جن پر آم کے گچھے تھے ۔ اسے معلوم ہے کہ لہسہ پر بیٹھتے ہی تو تے کے پیر شاخ سے چپک جائیں گے پھر تو تے کو پکڑا جا سکتا ہے۔ اُدھر امین صاحب تو تے کو پالنے کے لیے پیتل کی تیلیوں سے بنا ہوا ایک خوبصورت پنجرہ بھی خرید لائے ۔ تمام تیاریاں ہو گئیں بس تو تا پکڑنا باقی ہے۔

 ایک دن شام کے وقت ، دانش بھاگتا ہوا آیا ۔ صاحب، میں نے وہ تو تا پکڑ لیا ! کنٹھی   دار تو تا جیسے ہی لہسہ پر بیٹھا اُس کے پیر شاخ سے چپک گئے۔ اس نے پر پھڑ پھڑاتے ہوئے اڑنے کی بہت کوشش کی لیکن لہسہ  سے پیروں کے چپک جانے پر وہ اڑ نہیں سکا۔ تو تا گھبرا کرچیخنے  اور اپنے پروں کو پھڑ پھڑانے لگا۔ تبھی میں نے پیڑ پر چڑھ کر تو تے کو پکڑ لیا۔ حالانکہ توتے کے پیروں کو لہسہ  سے چھڑانے میں بڑی ہوشیاری سے کام لینا پڑا۔

 دانش کی آواز سنتے ہی امین صاحب باغ میں پہنچ گئے ۔ شاباش دانش ! امین صاحب نے دانش کے ہاتھوں میں تو تے کو دیکھ کر شاباشی دی۔ انھوں نے پہلے تو تے کو پنجرے میں بند کیا۔ پھر دانش علی کو سوروپے انعام میں دیے۔

” مٹھو میاں ” امین صاحب نے تو تے کو نام دیتے ہوئے پکارا۔ یہ تو تادیکھنے میں پندرہ سولہ انچ ہے۔ لیکن مٹھومیاں کے بدن کی لمبائی کم اور پونچھ کی زیادہ ہے۔

 اس کی پونچھ فٹ بھر بھی اور خوبصورت ہے!  امین صاحب نے مٹھو میاں کی لمبی سی پونچھ کی تعریف کرتے ہوئے کہا۔

"گلے میں لال رنگ کنٹھی  کا جواب نہیں ۔” دانش نے تو تے کی گردن پر گولائی میں لال رنگ کی طرف دھیان دیا۔ واقعی ہرے رنگ کے تو تے کی لال کنٹھی بہت اچھی لگ رہی ہے۔ اسی کی وجہ سے مٹھو میاں دوسرے تو توں سے بہت الگ دکھائی دیتا ہے۔

” یہ  تو تا ، یہاں کا نہیں لگتا ہے۔”  دانش نے کہا۔

” ہاں۔ یہ اس علاقہ میں نہیں پایا جاتا ہے۔ ” امین صاحب کو تو توں کے بارے میں بہت کچھ پتا ہے۔ "صاحب ، یہ تو تا کہاں سے آیا ہوگا ؟”  دانش نے معلوم کیا۔ اسے بھی یہ تو تا بہت پسند تھا۔

” ویسے تو یہ تو تے دکھن میں پائے جاتے ہیں لیکن کبھی کبھی دور نکل جاتے ہیں۔” امین صاحب نے توتے کے بارے میں بتایا۔ ” میرا خیال ہے کہ یہ وہیں سے آیا ہے۔“ 

"عام طور پر تو تے جنگلوں میں پھولوں کی کلیاں، پھل، سوکھے میوے، اور پھلوں و پھولوں کے بیج کھاتے ہیں۔ لیکن آبادی میں کھیتوں میں اناج بھی چُگتے ہیں۔ "امین صاحب تو توں کی عادتوں کے بارے میں بتانے لگے ۔ "انھیں ہری مٹر بھی بہت پسند ہے۔“

” تو کیا یہ کھانے کے لیے اتنالمباسفر کرتے ہیں؟” دانش علی نے حیرت سے پوچھا۔

” ہاں کھانے کی تلاش اور شوق میں کافی دور چلے جاتے ہیں۔” امین صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اسی لیے تو ہمارے باغ میں آیا ۔“

"یہ بولنے کیسے لگتے ہیں؟”  دانش نے کئی تو توں کو بات کرتے سنا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ تو تے انسانوں کی زبان میں کیسے بولنے لگتے ہیں۔

” یہ خود سے بولنا نہیں جانتے ہیں۔”  امین صاحب نے دانش کو سمجھاتے ہوئے بتایا۔ پھر یہ کہتے ہوئے ہننے لگے۔ یہ تم سے زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں ، تو تے انسانوں کی آواز سن کر نقل اتارتے ہیں۔ اگر انھیں محبت سے سکھایا جائے تو یہ کافی باتیں کرنا سیکھ جاتے ہیں۔” دانش علی حیران رہ گیا کہ خود توتے بولنا نہیں جانتے لیکن نقل کر لیتے ہیں۔

” تو کیا یہ کوئی بھی زبان بول سکتے ہیں؟” اس نے سوچا کہ دکھن میں دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں تو کیا یہ توتا ہماری زبان بول سکے گا ؟”

"ہاں ! انھیں جس زبان میں بات کرنا سکھاؤ یہ وہی بولنے لگتے ہیں۔”  یہ سن کر دانش کی حیرانی اور بڑھ گئی ۔ وہ آج تک لکھنا پڑھنا نہیں سیکھ پایا جس کے لیے وہ ہمیشہ پچھتاتا بھی ہے۔

"اچھا تب تو یہ عقلمند ہوتے ہیں؟”  دانش نے تو تے کی تعریف کی۔

” دیکھنا یہ بہت جلد باتیں کرنے لگے گا۔ پھر ہمارے گھر میں خوب رونق رہے گی ۔”  امین صاحب نے تو تے کو ہری مرچ کھلاتے ہوئے کہا۔ دوسروں کی طرح وہ بھی مانتے ہیں کہ ہری مرچ کھانے سے تو تے جلدی اور صاف بولنے لگتے ہیں۔ حالانکہ یہ سچ  نہیں۔ پھر وہ اٹھتے بیٹھتے تو تے کو مٹھو میاں مٹھو میاں کہتے رہتے ۔ شاید بار بار دوہراتے رہنے سے تو تا نقل کرتے ہوئے وہی بولنا سیکھ جاتا ہے۔ کئی دنوں کی کوشش کے بعد تو تے نے مٹھو میاں کہنا سیکھ لیا۔ 

"اس کے منہ سے مٹھو میاں سن کر کتنا میٹھا لگتا ہے۔ دانش کے چہرہ پر خوشی ہے لیکن امین صاحب کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں۔ تو تے کے بولنے کی خوشی میں مٹھائی کھائی اور کھلائی گئی۔ دانش تو پڑوسیوں کے گھر بھی مٹھائی بانٹ آیا۔ ”ہمارےمٹھو  میاں کی بسم اللہ کی مٹھائی ہے۔” اس نے پڑوسیوں کو بتایا۔ وہ بھی امین صاحب کو مبارکباد دینے آئے۔

ایک دن مٹھو  میاں نے کہا:  "اللہ نام لو ۔” یہ سن کر امین صاحب اتنا خوش ہوئے کہ مٹھو میاں کو انعام میں ایک امینی دسہری کھلائی ! ایک سال میں تو تے نے کئی باتیں کہنا سیکھ لیں۔ امین صاحب محلہ میں نکلتے تو اپنے ساتھ پنجرے میں تو تے کو بھی لے جاتے ۔ دھیرے دھیرے تو تا ان کی پہچان ہی نہیں بلکہ گھر کا” آدمی”  ہو گیا۔ اس کے بعد گھر کے اندر ہی کھڑکی دروازے بند رکھتے ہوئے امین صاحب تو تے کو پنجرہ سے نکال کر کندھے پر بٹھا کر گھمانے لگے۔ پہلے تو تا ادھر اُدھر اڑا لیکن کمرہ کے باہر نہیں جاسکا۔ پھر تو تا کندھے پر ہی بیٹھا رہتا اور اُڑ کر کہیں نہیں جاتا۔

"اب میں مٹھّو  میاں کو کندھے پر بٹھا کر گھر کے اندر گھما سکتا ہوں۔”  واقعی تو تا کندھے پر ہی بیٹھا رہا اور اس نے بھاگنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ آموں کے موسم میں امین صاحب مٹھو  میاں کو کندھے پر بٹھا کر باغ میں لے گئے۔

 یہ گھر کا” آدمی”  ہے اب کہیں نہیں جائے گا۔ امین صاحب نے دانش سے کہا۔ تبھی باغ میں تو توں کا غول آ گیا۔ جب تک دانش انھیں بھگانے کی کوشش کرتا اس سے پہلے ہی مٹھو میاں امین صاحب کے کندھے سے اڑ کر پیٹر کی شاخ پر بیٹھ رہا۔ امین صاحب بلاتے رہے لیکن مٹھو میاں پیٹر سے اتر کر نہیں آئے ۔ تبھی دانش نے دوسرے تو توں کو اڑا دیا۔ باقی تو توں کو اڑتے دیکھ کر پہلے تومٹھو  میاں پیٹر پر بیٹھا رہا۔

"مٹھو  میاں ، میرے پاس آجاؤ ۔”  امین صاحب مٹھو  میاں کے پیڑ کے پاس پہنچ گئے لیکن تو تے نے انھیں دیکھے بغیر ایک لمبی اڑان بھری۔ وہ آسمان میں اڑتے ہوئے تو توں کے ساتھ چلا گیا۔ مٹھو  میاں کبھی واپس نہیں آیا۔ امین صاحب نے دانش علی سے کہا اسے کہتے ہیں تو تا چشمی ۔ 

پھر امین صاحب نے دانش علی سے مسکراتے ہوئے کہا ” اگر تو بھی بے مروتی کرے گا تو اُسے کہیں گئے” تو تا چشمی”(طوطا چشمی) یعنی توتے کی طرح آنکھیں پھیر لینا !

دانش علی ہنسنے لگا۔

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top