redshanks

کہانی

یہ کہانی  (بے وقوف کچھوا)  نویں جماعت کے نصاب میں شامل ہے ۔ 

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی جگہ ایک قدرتی تالاب تھا۔ علاقے میں اکثر و بیشتر بارشیں ہوتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے تالاب میں پانی جمع رہتا تھا۔ آس پاس کے جانور اس تالاب کے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے تھے اورفضاؤں میں اڑنے والے پرندے بھی پانی دیکھ نیچے اترتے نہاتے اور اپنی پیاس بجھاتے

تھے۔ مرغابیوں کا ایک غول بھی اکثر و بیشتر اسی تالاب کے پانی سے لطف اندوز ہوتا اور اپنی خوراک تلاش کرتا تھا۔ تالاب میں کچھوے بھی رہتے تھے ۔ ایک کچھوے کی مرغابیوں سے دوستی ہوگئی۔ وہ اپنی قسمت پر نازاں تھا کہ مرغابیوں جیسے پرندے اس کے دوست تھے ۔ سبھی کے دن ہنسی خوشی گزر رہے تھے کہ ایک سال بارشیں نہ ہوئیں۔ خشک سالی کی وجہ سے پیٹر پودے مُرجھا گئے اور تالاب خشک ہونے لگے۔

 ان حالات میں جانوروں اور پرندوں نے نقل مکانی شروع کر دی اور کچھ مر گئے۔  ایک دن مرغابیوں کا غول اس تالاب پر اتر اتو وہ تالاب بھی خشک ہونے کو تھا۔ اس تالاب کے کچھ مینڈک اور کچھوے تو مر گئے تھے اور بیشتر نے حالات کے پیش نظر نقل مکانی کر لی تھی۔ وہ کچھوا جس کی مرغابیوں سے دوستی تھی، وہیں تھا۔ ایک مرغابی نے اس سے کہا : یہ تالاب تو آئندہ چند روز میں خشک ہو جائے گا اس لیے ہم تمھیں الوداع کہتے ہیں۔“ کچھوا بولا : ” کیا تم مجھے اپنے ساتھ نہیں لے جا سکتے ہو؟“ 

مرغابی نے جواب دیا : یہ کیسے ہوسکتا۔ تمھارا شمار ر رینگنے والے جان داروں میں ہوتا ہے جب کہ ہم اُڑنا جانتے ہیں۔ کچھوے نے لجاجت سے کہا : اگر تم مرغا بیاں چاہو تو میں بھی اڑ سکتا ہوں ۔

اسی دوران ایک دواور مرغابیاں بھی ان دونوں  کی گفتگومیں شامل ہوگئی تھیں ایک مرغابی نے حیرانی سے کہا  کہ کچھوے بھلا کیسے جیسے اڑ سکتے ہیں ؟“ کچھوے نے جواب دیا: ”اگر دومرغابیاں ایک لکڑی کو دونوں سروں سے اپنی چونچوں میں دبائیں اور میں لکڑی کو درمیاں سے اپنے مُنھ میں دبائے رکھوں   تو میں بھی اڑ سکتا ہوں اور اس طرح میں بھی تم سب کے ساتھ کسی دوسرے تالاب تک پہنچ جاؤں گا۔“ مرغا بیاں کچھوے کی اس تجویز پر حیران تھیں اور اسے ناممکن کَہ رہی تھیں۔ کچھوے نے اصرار کیا تو دو مرغابیاں آمادہ ہوگئیں۔

 کچھوے نے ایک لکڑی کا انتظام کیا۔ مرغابیوں نے لکڑی کو دونوں سروں سے مضبوطی سے پکڑا اور کچھوے نے درمیان سے لکڑی کو منھ میں دبا لیا۔ مرغابیاں اڑیں ، ترکیب کامیاب ہوئی اور کچھوا دل ہی دل میں خوش تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک آبادی پر سے گزرے۔ لوگ اس انوکھی بات کو دیکھ کر ہنسے۔ کچھوے نے اپنی تعریف کے لیے سو چے سمجھے بغیر منھ کھولا اور سیدھا زمین پر جا گرا۔ اس کے زمین پر گرتے ہی چند شرارتی لڑکے دوڑے اور ڈنڈے مار مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ کچھوے نے اپنی بے وقوفی کی وجہ سے اپنی جان گنوائی۔

 نتیجہ/اخلاقی سبق:

 بے وقوفی کا انجام ہمیشہ خطر ناک ہوتا ہے۔


دوسری کہانیاں پڑھیں! 

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top