ایہام گوئی اورصنعت ایہام

شعری صنعتوں میں سب سے دلچسپ اور نزاعی صنعت ایہام (لغوی مطلب: وہم میں ڈالنا) ہے۔
ایہام اسلوب کی وہ خاصیت ہے جس کی وجہ سے شعر میں دو معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایک معنی قریب کے، جو شعر سنتے ہی ذہن میں آتے ہیں لیکن ذرا غور کرنے پر معنی بعید منکشف ہوتے ہیں اور یہی شاعر کا مقصد ہوتا ہے۔ ایہام سے شعر میں اچھنبے کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ معنی بعید سے جمالیاتی حظ بھی حاصل ہوتا ہے۔ ایہام سنسکرت شاعری میں سلیش“ کے نام سے ملتا تھا۔
ولیؔ کے زیر اثر جب دہلی کے سینئر شعراء اردو غزل کی جانب متوجہ ہوئے تو انہوں نے ایہام پر بھی خصوصی توجہ دی لیکن میر اور سودا نے اس کے خلاف رد عمل کا اظہار کیا۔ ایہام کی ذومعنویت جنسی کنایوں کا جواز بھی بنی جیسے یہ شعر 

دخترِ درزی سینا دیکھ کر
جی میں آتا ہے کہ مل مل دیجیے

جبکہ اچھی مثال مومن کے اس شعر میں ملتی ہے:

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن
رات کاٹی خدا خدا کر کے


مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top