یہ کہانی (چالاکی | اپنا الو سیدھا کرنا) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

جنگل کے راجاشیر کو اپنی تعریف بہت پسند ہے۔ وہ اپنی ہمت اور طاقت کی باتیں کرتے نہیں تھکتا۔ اس نے جب کبھی بڑا شکار کرتا تو دہاڑتے ہوئے اپنی بہادری کا اعلان بھی کرتا کون ہے جو مجھ سے زیادہ بہادر ہے۔“
ایک بار شیر نے ایک خطرناک ارنا بھینسے کے بارے میں سنا۔ وہ شیر سے کئی گنا بھاری ہے۔ یہ جنگل کے جانوروں کو
گیدڑ سنار ہا تھا۔ یہ بھینسا اتنا طاقتور ہے کہ بڑے سے بڑے پیٹر کوٹکّر مار کر ا کھاڑ دیتا ہے۔“  لیکن کیا یہ بھینسا خطرناک ہے؟ جھاڑیوں میں چھپے خرگوش نے پوچھا۔ ” خطرناک؟” گیدڑ نے بڑھا چڑھا کر بتایا اگر تم اُسے غصّہ میں دیکھ لو تو تمھیں پتا لگے کہ خطر ناک کسے کہتے ہیں؟

اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ کتنا خطرناک ہے۔؟”

ہرن نے سادگی سے پوچھا۔ یوں بھی ہرن بہت معصوم ہوتا ہے۔
میں تمھیں ایک بار کی بات بتا تا ہوں۔ تم سمجھ جاؤ گے کہ میرا مطلب کیا ہے۔ گیدڑ نے جانوروں کی طرف دیکھتے
ہوئے قصہ سنایا۔

برسات کے دن تھے۔ جنگل میں ہر طرف ہریالی چھائی تھی۔ ایسے موسم میں ہاتھیوں کا جھنڈ مستی میں آگیا۔ وہ جدھر سے بھی گزرتے پیڑوں کو اکھاڑ پھینکتے ۔ کتنے ہی چھوٹے چھوٹے جانور ہاتھیوں نے کچل دیے۔ لیکن کسی کی ہمت نہیں ہوئی جو ہاتھیوں کو ٹوک دیتا۔ ان ہاتھیوں کا سردار بہت بڑا اور بھاری تھا۔ جس کے کان پنکھوں سے بھی بڑے تھے
اور دانت ایسے کہ گینڈے کو اٹھا کر پھینک دیں۔

“ ہاں پھر کیا ہوا؟ ہرن کو بے چینی ہے کہ جلدی سے معلوم ہو جائے ۔ ویسے ہرن ہر وقت چوکنے رہتے ہیں۔ اگر اسے اس ہاتھی کے بارے میں معلوم ہو جائے تو وہ خبر دار ہے۔ ارے ہونا کیا تھا۔“ اپنی کہانی سناتے ہوئے گیدڑ بتانے لگا۔ ” گرانڈیل ہاتھی مستی میں جھومتا ہوا جانوروں کو ڈراتا، کچلتا اور پیڑوں کو اُکھاڑتا چلا جارہا تھا۔ اس نے ایک چیتل کو اپنی سونڈ سے پکڑ کر اتنی دور پھینک دیا کہ وہ پیڑ کے اوپر گرا۔ اس کی کئی ہڈیاں ٹوٹ گئیں ۔ وہاں سُن رہے جانوروں کے چہروں پر ڈر دکھائی دینے لگا۔ گیدڑ نے کہانی آگے
بڑھائی۔
تبھی ارنا بھینسا جھومتا ادھر آ نکلا۔ ہاتھیوں کے سردار نے دیکھا کہ ار نے بھینسے پر اس کے غصّہ کا کوئی اثر نہیں۔ ہاتھی نے آگے بڑھ کر بھینسے کو ٹکر ماری۔ پہلے تو ار نے بھینسے کے پیرا کھڑ گئے لیکن وہ بھی کسی سے کم نہیں تھا۔ اُس نے اپنے پیر زمین پر گاڑ دیے۔ ہاتھی اپنا تمام زور لگانے پر بھی بھینسے کو پیچھے دھکیل نہیں سکا۔ وہ دونوں اپنے اپنے ماتھے سے زور لگائے تھوڑی دیر کھڑے رہے۔ پھر ارنا بھینسے نے پیچھے جاتے ہوئے ہاتھی سے تھوڑی دُوری پیدا کی ۔ اچانک ارنا بھینسا تیزی سے دوڑتے ہوئے ہاتھی سے اتنی طاقت سے جا کر کرایا کہ ہاتھی پیچھے ہٹتے ہوئے پیٹروں سے ٹک گیا۔ ارنے بھینسے کی لگا تار ٹکروں سے ہاتھی کو دونوں طرف سے چوٹ لگتی رہی۔ آگے سے بھینساٹکر لگا تا اور پیچھے پیڑ سے بھی ہاتھی کو چوٹ لگتی ۔ ہاتھی و ہیں ڈھیر ہو گیا!“ وہاں ایک لومڑی بھی یہ کہانی سُن رہی تھی۔ لومڑی بہت چالاک ہوتی ہے۔ اُس نے موقع کا فائدہ اٹھانے کے لیے سوچا۔ اور فوراً  شیر راجا کے پاس پہنچ گئی۔ لومڑی نے دُور سے ہی شیر کو سلام کرتے ہوئے کہا۔ راجا جی کی جے ہو۔“ شیر نے لومڑی کو گھورتے ہوئے پوچھا۔ ” کہو۔ کیا بات ہے؟“ وہاں گیدڑ خطر ناک ارنے بھینسے کی کہانی سنا رہا ہے۔ وہ اُسے جنگل کا سب سے زیادہ طاقتور جانور بتا رہا ہے۔

ابھی لومڑی نے اتنا ہی کہا تھا کہ شیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تو وہاں کیا کرنے گئی تھی ؟ شیر کی آواز میں ناراضی تھی ۔
میں ار نے بھینے سے یہ کہنے گیا تھا کہ اس جنگل کا راجا شیر ہے۔ اس سے زیادہ بہادر اور طاقتور کوئی نہیں ۔ ابھی
جا کر شیر کو سلام کرو۔“ پھر بھینسے نے کیا کہا؟ وہ میرے پاس سلام کرنے کیوں نہیں آیا ؟ شیر نے اپنی مونچھوں کے بال ہلاتے ہوئے کہا۔ شیر جب بہت غصہ میں ہوتا ہے تو اس کی مونچھوں کے بال تیزی سے ہلنے لگتے ہیں۔
آپ میری جان نہ لیں تو آگے بتاؤں؟‘ لومڑی نے فریاد کی۔ جلدی بتاور نہ تیری خیر نہیں ۔ شیر کا غصہ بڑھنے لگا۔ اس نے کئی جانوروں سے ار نے بھینسے کے بارے میں بہت
کچھ سُن رکھا تھا۔
راجا جی ،ارنے بھینسے نے بڑی بد تمیزی سے کہا کہ وہ شیرکورا جانہیں مانتا ہے۔ یہ سنتے ہی شیرنے اتنی زور داردہاڑ لگائی کہ لومڑی کئی گز پیچھے کھسک گئی۔ اُس نے چاپلوسی سے کہا۔ راجا جی۔ میں نے ارنے بھینسے سے کہہ دیا کہ میں جب تک تیرا کلیجہ نہیں کھاؤں گی میرا غصّہ ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ تو نے جنگل کے راجا کی بے عزتی کی ہے۔ یہ کہتے ہوئے لومڑی نے جھوٹے آنسو بھی بہائے ۔ تمھارےسامنے اس بھینسے کی کیا ہمت!تم اُسے مزا چکھا دو۔ میری بھی قسم پوری ہو جائے
گی۔ لومڑی نے شیر کو اکساتے ہوئے کہا۔

 کیوں نہ گیدڑ کو مار ڈالوں؟“ شیر نے لومڑی سے کہا۔ وہ جنگل کے جانوروں کو بھڑکا رہا ہے۔“ چالاک لومڑی نے پینترا بدلتے ہوئے سمجھایا۔ یہ جنگل کے راجا کی شان کے خلاف ہے کہ وہ گیدڑ جیسے ڈرپوک جانور کو مارے۔ اس سے جانور یہی سمجھیں گے کہ شیر صرف کمزور جانوروں کو مار سکتا ہے۔“ پھر لومڑی نے شیر کو پانی پر چڑھاتے ہوئے کہا ” جب شیر اس بھینسے کا شکار کرے گا تو سبھی جانوروں کو خود ہی پتا لگ
جائے گا۔“
تو ٹھیک کہ رہی ہے۔ شیر نے تاؤ میں آکر کہ دیا۔ میں اُس ارنا بھینسے کی بوٹی بوٹی نوچ کر کھا جاؤں گا ۔“ لومڑی نے موقع دیکھ کر شر کو یاد دلایا۔ پھر میری قسم کا کیا ہوگا؟ مجھے اس بھینسے کا کلیجہ کھانے کے بعد ہی ٹھنڈک پڑے گی۔“

لیکن تو نے یہ قسم کیوں کھائی تھی ؟ لومڑی کو اچھی طرح معلوم تھا کہ شیر کواپنی تعریف اور خوشامد اچھی لگتی ہے۔ میں نے اپنے جنگل کے راجا کی بے عزتی ہونے پرقسم کھائی تھی تمھاری عزت رہے گی تبھی تمھارے وفادار جانوروں کی جنگل میں کوئی حیثیت ہوگی۔ خوشامدی لومڑی نے شیر کو مکھن لگایا۔ ار نے پھینے کی وجہ سے مجھے منہ چھپانا پڑ رہا ہے۔“ لومڑی کا یہ تیر ٹھیک نشانہ پر لگا۔ شیر نے کہا ۔ ” تو خبر لگا کہ ارنا بھینسا کہاں ہے؟ میں آج ہی بھینسے کا شکار کروں گا ۔

 لومڑی یہی چاہتی تھی۔ وہ بہت دنوں سے پیٹ بھر کر کلیجی کھانا چاہتی تھی ۔ اسے بس موقع کی تلاش تھی ۔ ” میں ابھی جاتی ہوں تمھیں شام تک خبر دوں گی۔ یہ کہتے ہوئے لومڑی تیزی سے جنگل میں دُور تک نکل گئی۔ اس نے کافی دیر تلاش کرنے کے بعدار نے بھینسے کوڈھونڈ نکالا۔ وہ جنگل کے اُس کنارے اُونچی اونچی گھاس کھاتے ملا جہاں پانی کا جو ہڑ ہے۔ بے چارے ار نے بھینسے کو کوئی خبر نہیں کہ اس کے بارے میں کیا باتیں ہو رہی ہیں۔ گیدڑ بھی زیادہ تر شیر کے بچے ہوئے
شکار کو ہی کھاتا ہے۔
جب ارنا بھینسا پیٹ بھرنے کے بعد لمبی لمبی گھاس میں سو گیا تو لومڑی بھاگتی ہوئی شیر کوخبر کرنے پہنچ گئی۔ وہ ہانپتے
ہوئے بولی : ” میں نے اُس بھینسے کا پتا لگا لیا ہے۔“ کہاں ہے وہ ؟ شیر نے اپنی دُم کھڑی کرتے ہوئے کہا۔ ” آج اس بھینسے کی خیر نہیں ۔ وہ جو ہڑ کے پاس گھاس میں پڑا سو رہا ہے۔ لومڑی نے خبر دی۔ پھر شیر کو تاؤ دلاتے ہوئے کہا تا کہ شیر دیرنہ کرے۔ وہ اطمینان سے ہے کہ جنگل میں کوئی اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا۔“

 شیر نے چھلانگ لگاتے ہوئے لومڑی سے کہا ” تو جلدی سے وہاں پہنچ، ورنہ اسے شکار ہوتے نہیں دیکھ پائے گی ۔ شیر بہت تیزی سے دہاڑتا ہوا دوڑنے لگا۔ سبھی جانوروں کو پتا چل گیا کہ آج شیر بڑے شکار کے لیے نکلا ہے۔ لومڑی سے شیر نے یہ بھی کہ دیا کہ ” تو گیدڑ کو بھی ساتھ لے آنا تا کہ وہ دیکھ سکے کہ کون زیادہ بہادر ہے۔“
بے چاری لومڑی مجبوری میں گیدڑ کو بلانے چلی گئی۔ وہ شیر کو ناراض کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی تھی ۔ پھر اسے یقین ہے کہ بھینسے کی کلیجی شیر اُسے ہی کھانے کو دے گا ! جب گیدڑ کے ساتھ لومڑی وہاں پہنچی تو شیر اور ار نے بھینسے میں لڑائی چل رہی تھی ۔ وہ بھینسا بھی اپنی جان بچانے کے لیے بڑی ہمت سے لڑ رہا تھا۔ شیر نے بھینسے کو جگہ جگہ سے بھنبھوڑ ڈالا اور بھینسے کے جسم سے خون بہہ رہا تھا۔ اُدھر بھینسا بھی کم طاقتور نہیں وہ بھی شیر کو رگیدنے میں لگا ہوا تھا۔ دھیرے دھیرے ارنا بھینسے کی حالت خراب ہونے لگی۔ شیر کے کاٹنے، نوچنے اور بھنبھوڑنے سے وہ لہولہان ہو چکا تھا۔ ادھر شیر بھی زخمی ہو چکا تھا۔ وہ کوشش کر رہا تھا کہ جلدی سے بھینسے کوختم کر دے۔ شیر نے ہوا میں چھلانگ لگاتے ہوئے بھینسے کی گردن اپنے جبڑے میں پکڑلی۔ بھینسے نے شیر کو گردن سے گرانے کی بہت کوشش کی لیکن شیر نے اس کی گردن میں دانت گاڑ دیے۔ اس کے ساتھ وہ بھینسے کے سرکو اپنے پنجوں میں دبا رکھا۔ تھوڑی دیر میں ہی بھینسا ڈھیر ہو گیا۔ شیر نے بچی کچی طاقت سے زور دار دہاڑ لگاتے ہوئے اعلان کیا۔
میں ہی جنگل کا راجا ہوں ۔ مُجھ سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں ! پھر شیر نے گیدڑ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ” کیوں بے؟ تو نے ارنا بھینسے کا حال دیکھا ؟ اب کس کی تعریف کرے گا ؟” اس سے پہلے گیدڑ کچھ کہتا اور لومڑی کی پول کھل جاتی لومڑی نے کہا ”سرکار کسی کی کیا مجال تمھارے علاوہ کسی کی تعریف کرے ! گیدڑ کی جان بخش دیجیے ۔ اس کے بعد لومڑی نے گیدڑ سے کہا ‘ جلدی سے شیر راجا کو سلام کر اور یہاں سے بھاگ جا۔ گیدڑ نے بھی ایسا ہی کیا۔ وہ بعد میں آکر بچے کھچے چھیچھڑے کھالے گا۔
راحاجی ! میری قسم پوری ہونے کا وقت آگیا۔ آج تمھاری بے عزتی کا بدلہ پورا ہو جائے گا ۔ لومڑی نے شیر کی خوشامد کرتے ہوئے کہا۔ ” جلدی سے اس بھینسے کا پیٹ پھاڑ دو۔“ شیر نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس نے پہلے بھینسے کا پیٹ پھاڑا تاکہ لومڑی کلیجی کھا سکے۔ اور وہ خود بھینسے کی گردن کھانے میں لگ گیا۔ لومڑی نے جلدی سے بھینسے کے پھٹے ہوئے پیٹ سے کیجی نکالی اور اُسے لے کر اپنے بھٹ میں آگئی کہ پتا نہیں کب شیر کا ارادہ بدل جائے۔ بے چارے شیر کو خبر بھی نہیں کہ لومڑی نے اُسے اُکسا کر اپنا کام نکالا ہے۔ وہ کب سے اس تلاش میں تھی کہ اُسے کلیجی کھانے کے لیے مل جائے ۔ لومڑی خود سے بولی۔
اسے کہتے ہیں: اپنا الو سیدھا کرنا !”

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top