اِبہام کی تعریف

لاطینی لفظ Ambiguity

کا لغوی مطلب ” بیک وقت دونوں جانب گاڑی چلانا ہے لیکن ادب و نقد میں ابہام کے مقبول مفہوم میں یہ امور شامل ہیں؛

الجھی بات /مشکل عبارت

مشکل الفاظ کی وجہ سے مفہوم کا نا قابل فہم ہونا

شعر میں ایسی علامتوں / استعاروں کا استعمال جن تک قاری کے ذہن کی رسائی نہیں ہو پاتی ۔

دوراز کار مثالوں سے مفہوم کو الجھا دینا۔

جدید نظم گو شعراء بالخصوص میرا جی کی شاعری کے بارے میں جب یہ کہا گیا کہ وہ مبہم ہے اور اس لیے ناقابل فہم تو ایسا دراصل ان علامات کی وجہ سے تھا جو اس کے عہد کے ناقدین / قارئین کے لیے نامانوس تھیں ۔ غالب کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا لیکن اب غالب اور میرا جی دونوں کے بارے میں ابہام والی بات صحیح نہیں لگتی۔ بالفاظ دیگر ابہام کو اضافی قرار دیا جا سکتا ہے۔ یوں ایک عہد کا ابہام دوسرے عہد کے لیے الہام بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ابہام کے سلسلہ میں علامہ اقبال نے

“Stray Reflection”

میں کیا اچھی بات لکھی ہے: میتھیو آرنلڈ دوٹوک قسم کا شاعر ہے مگر میں تو شاعری میں کسی حد تک ابہام کوپسند کرتا ہوں ۔ اس لیے کہ ابہام ہمارے ہیجانات کو گھمبیرمحسوس ہوتا ہے ۔“
انگریزی تنقید میں ولیم ایمپین نے ابہام کی تشریح وتوضیح کرتے ہوئے ابہام کی سات صورتیں بیان کی ہیں ۔ ملاحظہ کیجیے:
Empson, William “Seven Types of Ambiguity” (London, 1930)

مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: Content is protected !!
Scroll to Top