یہ کہانی (شُتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانا | انوکھی ترکیب) ادریس صدیقی کی تحریر ہے۔

جنگل کے پاس شیر سے بچنے کے لیے ایک شتر مرغ بہت تیزی سے بھاگ رہا ہے۔ اس کی رفتار پچاس کلومیٹر فی گھنٹہ سے کم نہیں ۔ یہاں دور دور تک ریتیلی اور او بڑکھا بڑزمین ہے۔

“دیکھوشترمرغ کتنی تیزی سے دوڑ رہا ہے ۔ ” وہاں جنگل کے ایک کو نا میں کھڑے ہرن نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔

“واقعی ۔ اس کا ایک ایک قدم کتنی دور پڑرہا ہے۔” ہرنی نے حیرانی جتائی ۔

“ہم لوگ بھی اتنی تیزی سے نہیں دوڑ سکتے ۔ ہرن نے کہا۔ ”چاہے ہمارے پیچھے شیر ہی کیوں نہ ہو ۔ “ یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ ہرنوں کے دوڑنے کی رفتار وہ بھی لگا تار اتنی زیادہ نہیں ہوتی۔

” بے چارہ شتر مرغ بھی کیا کرے؟ وہ اتنا بھاری ہوتاہے کہ اڑ نہیں سکتا ۔ “ ہرنی نے افسوس کے ساتھ کہا۔ اسےشتر مرغ سے ہمدردی ہے۔

ہاں وہ لگا تار اتنی تیزی سے نہیں دوڑے گا تو شیراُسے کھا جائے گا۔ ہرن بولا۔

تو کیا شیر اسے پکڑ نہیں پائے گا؟ ہرنی نے پوچھا۔ نہیں ۔ کیونکہ شیر تھوڑی دیر بعد اتنا تیز نہیں دوڑ سکتاہے۔ پھر ہرن بولا ۔ ” کیا تمھیں یاد نہیں کہ ہمارے ساتھ بھی یہی ہوا تھا؟ ہم نے لگا تارتیزی سے دوڑ کر اپنی جان بچائی تھی۔”

لیکن شتر مرغ اتنا بھاری ہونے پر تیز رفتاری سے کیسے دوڑتا ہے؟ ہرنی کو حیرانی ہوئی۔ تم نے شتر مرغ کے پنجوں کو دیکھا ؟ اس میں صرف دو انگلیاں ہیں ہرن نے ہرنی کا دھیان شتر مرغ کے پنجوں کی طرف دلایا۔

ارے یہ تو کمال ہو گیا۔ ہرنی نے دیکھا ہے کہ زیادہ تر چڑیوں کے پنجہ میں چار انگلیاں ہوتی ہیں۔

” پھر اس کے تلوے گدے دار تھیلی جیسے ہیں اس لیے شتر مرغ ریت پر بہت تیزی سے دوڑ سکتا ہے۔ شیر نہیں ۔”  ہرن نے ایک اور نئی بات ہرنی کو بتائی۔

اس کے بعد وہی ہوا جو ہرن نے کہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی شیر نے شتر مرغ کا پیچھا کرنا بند کردیا۔ ان دونوں کے بیچ فاصلہ بڑھتا جارہا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ شیر اب شتر مرغ کو نہیں پکڑ پائے گا۔ پھر شیر نے ہرنوں کی طرف دیکھا۔ وہ سارے ہرن تیزی سے بھاگ نکلے ۔ اب انھیں شیر سے اپنی جان بچانی ہے۔

 یه شتر مرغ اسی سنسان جگہ پر رہتا ہے۔ یہاں ریتیلی زمین ہے۔ کہیں کہیں جھاڑیوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ کالے پروں اور نیچے سفیدی لیے ہوئے اس شتر مرغ کی گردن پر کوئی بال نہیں ۔ بس ہلکے سے روئیں ہیں۔ اس کی پونچھ میں کافی سفید بال بھی ہیں۔ شتر مرغ کی اونچائی چھوٹ سے کچھ زیادہ ہے۔ وہ پلٹ کر اپنے خاندان کے پاس آگیا۔ آج شیر سے جان بچانا مشکل ہو گیا تھا۔ شتر مرغ نے اپنی بیوی سے کہا۔

کیوں ؟ تمھاری رفتار شیر سے تیز ہوتی ہے۔ وہ کیا چیتا تھا؟ اس نے پوچھا۔

اگر چیتا ہوتا تو کیا میں بچ پاتا ؟ شتر مرغ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔ چیتے کے دوڑنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے جبکہ شتر مرغ پچاس کلو میٹر سے زیادہ تیز بہت دیر تک نہیں دوڑ سکتا ہے۔ ہمارے بھی کتنے دشمن ہیں ؟ ما دہ شتر مرغ نے افسوس سے کہا۔

” ہاں۔ اب تو آدمی بھی ہمارا گوشت کھانے لگے ہیں۔ ہماری کھال کا چھڑا بناتے ہیں ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ان کے ایک ساتھی کو انسان نے شکار کیا تھا۔

سب سے زیادہ مصیبت پروں کی وجہ سے ہے۔ وہاں ٹہلنے آئے شتر مرغ کے دوست نے کہا ” لوگ انھیں کئی کاموں میں استعمال کرنے لگے ہیں۔ وہ وزن میں بھی بہت بھاری ہے اور اس کے پروں کی گنتی بھی نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو سبھی پرندوں کی پریشانی ہے۔ لیکن شکر ہے کہ ہم وقت پڑنے پر اپنے دشمنوں کو مارنے کی طاقت رکھتے ہیں۔“ شتر مرغ نے تسلی دی۔

ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے جب شتر مرغ اپنے خاندان کے ساتھ چلنے میں لگا تھا۔ تبھی اس کا پرانا دشمن دھبّوں والا لکڑ بگھّا وہاں آ گیا۔ وہ کافی دنوں سے شتر مرغ کے خاندان پر تاک لگائے ہوئے ہیں۔ وہ تو اچھا ہوا کہ شتر مرغ نے لکڑ بگھّے  کی بُو بہت  ڈور سے سونگھ لی تھی۔ پھر اسے دور تک بہت صاف دکھائی دیتا ہے۔ آخر دو انچ بڑی گولائی میں آنکھیں ہیں! اس نے دُور سے ہی دبے پاؤں آتے ہوئے لکڑ بگھے کو دیکھ لیا ور نہ نجانے کیا ہو جاتا! اس وقت شتر مرغ کے بچوں کی ماں اپنے پنکھ پھیلائے بچوں کو دھوپ اور گرمی سے بچا رہی تھی۔ لکڑ بگھا کافی قریب پہنچ گیا۔ شتر مرغ کے سامنے کوئی اور راستہ نہیں کہ وہ بچے اور ان کی ماں کو بچانے کے لیے بدمعاش لکڑ بگھے کا سامنا کرے۔ اس نے لکڑ بگھے کے سامنے پہنچ کر اس کا راستہ روک لیا۔ پھر شتر مرغ نے اپنی ٹانگ سے لکڑ بگھتے پر وار کیا ۔ ” تراخ‘ کی آواز دُور تک سنائی دی۔ اس نے اپنی ڈیڑھ فٹ سے بھی زیادہ لمبی اور بے حد مضبوط ٹانگ لکڑ بگھّےکے منہ پر ماری۔ تب لکڑ بگھے کو اندازہ ہوا کہ شتر مرغ کی ٹانگ کسی لاٹھی کی طرح مضبوط اور طاقتور ہوتی ہے۔

 ارے باپ رے لکڑ بگھے کے منہ سے نکلا۔ وہ منہ پر اتنی زبر دست لات پڑتے ہی گھبرا گیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگے۔ اس کے بعد لکڑ بگھا روتا ہوا وہاں سے بھاگ نکلا ۔ اُسے برسوں پہلے گاؤں میں گھسنے پر دیہاتیوں کی لاٹھی کی مار یاد آ گئی۔

 شتر مرغ کا خاندان بہت بڑا نہیں ہے۔ وہ زیادہ تر جھاڑیوں اور گھاس میں پھول، پتے اور بیج کھاتے ہیں لیکن کبھی قسمت سے ہڈیاں کھانے کو مل جائیں تو کیا کہنے! انھیں آج کل شا کا ہاری کے علاوہ کیڑے مکوڑے اور ٹڈی  کھانے کومل رہی ہیں اس لیے وقت اچھا گزر رہا ہے۔

 تم لوگ تھوڑے کنکر ضرور کھا لینا ور نہ کھانا ہضم کرنے میں پریشانی ہوگی ۔ شتر مرغ نے اپنے بچوں سے کہا۔ وہ خود بھی زمین میں چھوٹے چھوٹے کنکروں اور تھروں کو نگل رہا ہے۔ اس کے بغیر پیٹ میں کھانے کی پسائی نہیں ہوگی۔

شتر مرغ زیادہ تر جھاڑیوں میں اپنی گردن ڈال کر کنکر کھاتے ہیں۔

”پانی کے لیے پریشان نہ ہو۔ ماں نے بچوں کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ بودھوں اور پتیوں کو کھاؤ۔ ان سے نمی مل جائے گی ۔ اسی لیے انھیں پانی کی بہت پروانہیں رہتی۔

ابھی کھانے کا وقت چل رہا ہے کہیں سے جنگلی کُتّے  آتے دکھائی دیے۔ چونکہ شتر مرغ کا گھر یہی کھلا میدان ہے اس لیے کہیں چھپنے کی بھی جگہ نہیں ۔ وہ کتوں کو دیکھتے ہی ادھر ادھر بھاگ کھڑے ہوئے تا کہ اُن سے جان بچا سکیں۔ لیکن کُتّے ہیں۔

کہ وہ شتر مرغ کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے۔ اس وقت شتر مرغ،  کُتّوں سے لڑنا ٹھیک نہیں سمجھ رہا۔ اس لیے وہ بھاگتے ہوئے جھاڑیوں تک پہنچ گیا۔ پھر شتر مرغ اچانک زمین پر لیٹ گیا اس کی لمبی سی گردن اور سرزمین سے لگے ہوئے ہیں۔ وہ بغیر حرکت کے چُپ چاپ زمین پر پڑا ہوا ہے۔ چونکہ شتر مرغ کا رنگ ایسا ہے کہ وہ دُور سے مٹی کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے زمین پر بغیر ہلے ڈلے پڑا ہوا شتر مرغ دور سےکُتّوں  کو مٹی کا ڈھیر لگا۔ تھوڑی دیر میں کُتّے لوٹ گئے۔ حالانکہ شتر مرغ ریت میں اپنا سر چھپائے ہوئے سمجھ رہا کہ اُسے کوئی نہیں دیکھ پائے گا کیونکہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ رہا، شاید تبھی سے “شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبانا“ کہا جانے لگا۔ 

اگر آپ چاہیں تو یہ بھی پڑھ سکتے ہیں:

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top