انشائیہ کی تعریف اور روایت
(Essay)انشائیہ کی تعریف
“انشائیہ بھی مضمون ہی کی ایک دوسری شکل ہے مگر ایک انشائیہ کا انداز مضمون کے منطقی انداز کے برعکس غیر رسمی ہوتا ہے۔ اور اسے کہیں سے بھی شروع کر کے کہیں بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے انشائیہ کی زبان شستہ و رواں ہونے کے بجائے زیرِ لب تبسّم کا انداز لیے ہوئے شگفتہ اور غزل کی طرح رمز و کنائے کی زبان ہوتی ہے۔ اور انشائیہ لازمی طور پر انشائیہ کے داخلی جذبات و تاثرات کا ترجمان ہوتا ہے یعنی اس میں مصنف کی ذات کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ “
انشائیہ جس انگریزی
Essay
کا ترجمہ ہے اپنی اصل میں وہ فرانسیسی الاصل ہے جبکہ محمد ارشاد کے بقول فرانسیسی زبان کا لفظ
Assai
در حقیقت فرانسیسی زبان کا لفظ نہیں بلکہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں سعی کے معنی کوشش اور کوشش کرنا کے ہیں ۔ “ ( فنون: جولائی ۔ اگست 1982ء)
فرانس کے مونتین
(Montaigne)
نے 1580ء میں
“Essays”
کی دو جلدیں طبع کیں۔ اس نے”ایسّے“لکھنے جاری رکھے اور 1586ء میں تیسری جلد اور دو برس بعد
Essays
کی کلیات شائع کی گئی۔
1603ء میں جان فلور یو
(John Florio)
نے مونتین کی 1580ء میں مطبوعہ دو جلدوں کے
Essays
کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور یوں انگریز اہلِ قلم نے بھی اس کی طرف توجہ دی۔ سب سے پہلے فرانس بیکن نے اس انداز نگارش کو اپنایا۔ 1597ء میں دس ایسریز پر مشتمل مجموعہ “Essays” طبع ہوا۔
1621 ء میں دوسرا مجموعہ
The Essays of Sir Frances Bacon, Knight. The King’s” ” Solicitor General
کے نام سے شائع ہوا۔
انشائیہ کی روایت
انگریزی میں ایسّز کی تابندہ روایت کی تشکیل کرنے والے لا تعداد اہل قلم میں سے جوزف ایڈیسن ،رچرڈ سٹیل، سیموئیل جانسن، آلیور گولڈ سمتھ ، چارلیس لیمب، ولیم ہنرلٹ، جی کے چیسٹرٹن ہسٹیفن لی کاک، میکس بیر بھوم خصوصی شہرت کے حامل ہیں۔ انگریزی زبان کے نصاب میں شامل ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں ایسّے عام ہو گیا ۔ اگر چہ مدت تک سرسید احمد خاں کو اردو میں انشائیہ کا بانی سمجھا جاتا رہا جیسا کہ ڈاکٹر سیدعبداللہ نے ” سرسید احمد خاں اور ان کے رفقاء کی نثر کا فکری اور فنی جائزہ “میں لکھا:
”اردو میں مضمون نگاری کی صنف کے بانی سرسید ہی تھے۔ ادب کی یہ صنف
جس کا انگریزی نام
Essay
ہے، یورپ میں سے حاصل کی گئی ۔ “ ( ص : 43)
لیکن اب پہلے انشائیہ نگار کا تعین سرسید سے بھی پہلے کیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر اپنی تالیف “ماسٹر رام چندر اور اردو نثر کے ارتقاء میں ان کا حصہ“میں لکھتی ہیں کہ ماسٹر رام چندر نے اپنے دو ( پندرہ روزه) رسالوں فوائد الناظرین ( تاریخ اجراء : 23 مارچ 1845 ء ) اور محب ہند ( تاریخ اجراء : کیم تمبر 1847ء) میں انگریزی اپنے کے انداز پر کئی مضامین لکھے۔ اس ضمن میں وہ لکھتی ہیں ماسٹر رام چندر اردو کے پہلے مضمون نگار ہیں جنہوں نے شعوری طور پر اردو ادب میں اس صنف کی ابتدا کی ۔“ (ص:52) ڈاکٹر صاحبہ مزید لکھتی ہیں انہوں نے کئی انگریزی مضامین کا ترجمہ بھی کیا تھا اور متعدد موضوعات پر انگریزی طرز ہی میں مضمون لکھنے کی کوشش کی تھی ۔ ” (ص: 73)
ماسٹر رام چندر بنیادی طور پر سائنسدان تھے۔ وہ دہلی کالج میں معلم تھے جہاں محمد حسین آزاد اور نذیر احمد ان کے شاگرد تھے ۔ ماسٹر رام چندر کے بارے میں مزید معلومات کے لیے صدیق الرحمن قدوائی کی تالیف ماسٹر رام چندر (شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی 1961ء) کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ماسٹر رام چندر اور سرسید احمد خاں کے بعد محمد حسین آزاد کی ”نیرنگ خیال“ہے۔ ڈاکٹر محمد صادق نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ”نیرنگ خیال“ کے مضامین جانسن اور ایڈیسن کے علاوہ سپکٹیٹر اور ٹیلر کے ایسیز سے ماخوذ ہیں ۔ “ ( بحوالہ : “محمد حسین آزاد: احوال و آثار ص: 76-77)
انگریزی ناقدین نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے کہ ایسّے کی قطعی تعریف ممکن نہیں کیونکہ مونتین نے غیر رسمی انداز میں جو کچھ لکھا، وہ مُروّج نثری اصناف سے ایک طرح کا انحراف تھا۔ انگریزی میں ایسّے کا لفظ کئی طرح سے مستعمل ہے۔ ہلکی پھلکی شگفتہ تحریر سے لے کر مقالہ حتی کہ کتاب تک کے لیے بھی ایسّے کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے جیسے
Ernst Cassirer
کی کتاب
1954 ,An Essay on Man” New York”۔
جہاں تک بطور صنف / اصطلاح اردو انشائیہ کا تعلق ہے تو ڈاکٹر وزیر آغا اور ان کے احباب نے تاریخی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے بڑے زور شور سے یہ پروپیگنڈا جاری رکھا ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا ہی اس صنف کے بانی اور اصطلاح کے موجد ہیں جس کے جواب میں ،میں نے اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں ٹھوس شواہد کی روشنی میں تردید کرتے ہوئے یہ لکھا تھا
”جس زمانہ (1957ء) میں ڈاکٹر وزیر آغا کی تحریریں ادب لطیف میں نثر لطیف ،لطیف پارہ یا خیالیے کے عنوان سے چھپتی تھیں اور وہ ہنوز لفظ انشائیہ سے نا آشنا تھے تو اس سے کہیں پہلے 1944ء میں سید علی اکبر قاصد کے انشائیوں کا مجموعہ ” ترنگ پٹنہ“ سے شائع ہو چکا تھا۔ اس کا تعارف کلیم الدین احمد اور دیباچہ اختر اور ینوی نے لکھا تھا۔ 102 صفحات پر مشتمل یہ کتاب گیارہ انشائیوں پر مشتمل ہے۔ اختر اور ینوی نے اپنے دیباچہ کا آغاز ان سطور سے کیا ہے:
اردو ادب میں انشائیوں (Essays) اور خاکوں کی بڑی کمی ہے۔ کبھی کبھار کوئی اچھا سا انشائیہ پرچوں میں نکل آتا ہے تو دو گھڑی جی بہل جاتا ہے۔” (ص: 529)
جس طرح کثرت تعبیر سے خوبصورت خواب، خواب پریشاں میں تبدیل ہو جاتا ہے اسی طرح انشائیہ کا بھی تماشا بنا دیا گیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا ” انشائیہ کی پہچان ” میں لکھتے ہیں:
”آپ سمندر کی طرف پشت کر کے کھڑے ہو جا ئیں اور پھر جھک کر اپنی ٹانگوں میں سے سمندر کو دیکھیں تو آپ کو ایک ایسا منظر دکھائی دے گا جو آپ سے پہلے شاید ہی کسی اور کونظر آیا تھا۔ ٹانگوں میں سے سمندر کو دیکھنے کی یہ روش دراصل آپ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ عطا کرے گی۔ جو دیکھنے کے مُروج انداز سے آپ کو آزاد کر دے گا۔ اس نئے مقام کی تسخیر کے بعد آپ کے ہاں جو عجیب و غریب ردعمل مرتب ہوگا وہی انشائیہ کی جان ہے۔“
نئے مقالات‘ ص: 230)
ڈاکٹر وزیر آغا کے بعض احباب نے بھی ایسی ہی مثالیں دی ہیں۔ غلام جیانی اصغر نے مقالہ ”انشائیہ کیا ہے “میں آپ نے سر کے بل کھڑے ہو کر دنیا دیکھنے کی بات کی ۔ “ ( مقالہ مطبوعہ اوراق مارچ ۔ اپریل 1972ء)
ایسی تعریفوں کی بنا پر انشائیہ طنز و مزاح اور لطیفہ بن کر رہ گیا۔ ظفر اقبال نے اس رویہ پر یوں احتجاج کیا:
”انشائیہ دراصل اتنا برا ہے نہیں جتنا اسے بنا دیا گیا ہے۔ اس مرنجاں، مرنج ، بے ضرر اور عامیانہ صنفِ ادب کے ساتھ پہلا ظلم یہ روا رکھا گیا کہ اسے با قاعدہ ایجاد کیا گیا ۔ حالانکہ یہ اپنی نام نہاد ایجاد سے صدیوں پہلے موجود تھی ۔ پھر اسے نہایت غیر ضروری طور پر کچھ اس طرح بانس پر چڑھایا گیا جس کا منطقی نتیجہ یہ تھا کہ اس سے بہت اونچی تو قعات وابستہ کر لی گئیں جن پر یہ پوری اتر ہی نہ سکتی تھی ، لہذا نہ صرف قارئین کو مایوسی ہوئی بلکہ ایک قدرتی تعصب اس کے خلاف پیدا ہوتا گیا اور اس کے موجد اور پیپا کوٹنے والے حضرات کو اس بات کا احساس ہی نہ ہو سکا کہ اس طرح وہ اس غریب کے ساتھ کتنے بڑے ظلم کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ یہی سلوک محترم ڈاکٹر وزیر آغا صاحب کے ساتھ کیا گیا۔ انہیں وہ وہ اور ایسا ایسا ثابت کرنے کی سرتوڑ کوشش ان کے نادان دوستوں کی طرف سے کی گئی اور تاحال کی جا رہی ہے جو اور جیسے وہ ہر گز نہیں ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آغا صاحب کی جو اصل اور موجود حیثیت جو اس حوالے سے بھی ہے، وہ بھی مشکوک ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لیے بھی کہ یہ سب کچھ آغا صاحب کے ایماء واجازت سے کیا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹر وزیر آغا اور انشائیہ کے بریکٹ لکھے جانے کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے۔“
( انشائیہ کی بنیاد ص: 73-372)
الٹا لٹکنے اور سمندر کے ساحل پر مرغا بننے والی تعریفوں کی وجہ سے ہی انشائیہ متنازعہ قرار پایا جبکہ اس کی سیدھی سی تعریف یوں ہو سکتی ہے:
” بیدار ذہن کی حامل تخلیقی شخصیت کی زندگی کے تنوع سے زندہ دلچسپی کے بامزه نثر میں مختصر اور لطیف اظہار کو انشائیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ “
اگر چه سرگودھا گروپ والے انشائیہ کو صنف سے بڑھ کر تحریک ثابت کرنے پر تلے بیٹھے ہیں لیکن مشفق خواجہ نے دوستی کے باوجود انشائیہ تحریک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لکھتے ہیں:
”تحریک چلانے والوں کی خدمت میں بصد ادب عرض ہے کہ ادب میں تحریکیں اصناف کے نام پر نہیں چلتیں ، کبھی کسی نے غزل مثنوی ، رباعی یا تنقید کے نام پر تحریک نہیں چلائی ۔ انشائیے کی تحریک چلانے والوں کی خدمت میں مزید عرض ہے که اصناف ادب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ۔ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کسی صنف کے ذریعے جو ادب پیش کیا جا رہا ہے وہ کس معیار کا ہے۔“
سخن ہائے گسترانہ ص: 250)
مزید مطالعہ کے لیے ملاحظہ کیجیے:
مشکور حسین یاد ممکنات انشائیہ (لاہور: 1983ء)
(لطیف ساحل ” اردو انشائیہ کے ابتدائی نقوش (لاہور: 1994ء) سلیم اختر ، ڈاکٹر اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ (لاہور: 2009 ء )
ايضاً انشائیہ کی بنیاد ( لاہور : 2002ء)
شہزاد قیصر ( مرتب ) انشائیہ کا نفرنس 1988ء (لاہور: 1988ء)
Montaigne “Essays”London 1958
Mersand, Joseph “Great Narrative Essays” New York, 1968
مآخذ: تنقیدی اصطلاحات از ڈاکٹر سلیم اختر
-
اینٹی ناول کی تعریف
-
ہیرو اور اینٹی ہیرو
-
ایہام گوئی کی تعریف
-
بارہ ماسہ کی تعریف
-
بحر کی تعریف
-
علم بدیع کی تعریف
-
بندش الفاظ
-
انشائیہ کی تعریف اور روایت
-
انشا کی تعریف
-
امیجری کی تعریف اور مثالیں
-
امتزاجی تنقید کی تعریف
-
امالہ کی تعریف اور مثال
-
الہام
-
ارسطو کا تصور المیہ/Tregedy
-
مختصر ترین افسانہ / مختصر مختصر افسانہ
-
افسانہ / مختصر افسانہ کی تعریف
-
علامتی افسانہ کی تعریف
-
طویل مختصر افسانہ کی تعریف
-
تجریدی افسانہ کی تعریف
-
اظہاریت کی تعریف
-
اظہار کی تعریف | (Expression)
-
اصطلاح / اصطلاح سازی کی تعریف
-
اشاریہ کی تعریف
-
اسلوبیاتی تنقید کی تعریف
-
اسلوب کی تعریف اور اہمیت
-
استقرائی تنقید (Inductive Criticism) | منطق استقرائی
-
اسپرانتو (Esperanto)
-
اردو نثر میں ادب لطیف اور رومانیت
-
ادب کیا ہے؟
-
ادب کی لفظی/ لغوی و اصطلاحی تعریف
-
ابہام (Ambiguity)
-
ابلاغ (Communication)
-
آورد
-
آمد
-
آزادنظم (Verse Libry / Free Verse)
-
آزاد غزل کی تعریف
-
آپ بیتی